میں آج خود سے دور اس حجوم میں بیٹھا ہوں
وقت کا ہر لمہہ میرے تعاقب میں مجھے ڈھونڈتا ہے
ہمذات مجھ سے مخاطب ہے سرِ محفل تنہائی میں
ذکر رہا ہےکچھ ذہن کےفتور کچھ اپنے بےجاغرور کا
یاد کر رہا ہوں خوشی کےوہ لمہے شبِ تنہا ئی میں
لُٹا چکاہوں جو پل تلاشِ منزل کی جستجو میں اک صبح میں
تجھ سے بات کرنے کو در و دیوار ہی تو تھے ضرف میرے پاس
اب کامرانیاں مجھے ہجھوم میں اکیلا کیئےجاتی ہیں بار بار
میں اکیلا ہی رواں ہوں اپنے خدا کی تلاش میں اب
اک حقیقت سے بھاگ کر اک حقیقت کی تلاش میں
میرے سجدوں کو بخش دو اک گناہ کی تعبیرتم بھی
میں مسجودِ تکبر ہوں کوئی رعیا کار نہیں ہوں میں