Monday, August 21, 2017

برسوں کے بعد

آج پھر اداس سی اک شام آئی ہے برسوں کے بعد
پھر دل نے تمھیں بھلایا ہے اک بار برسوں کے بعد

بس اک یاد کا رشتہ ہے تم سے فقط باقی اب جاناں
وفاومہبت سچ وجھوٹ کوئی رنگ بامعنی نہیں رہے اب

لفظوں کی اُس مسلسل تکرار میں جذبوں کی برسات رہی
تنہا کھڑے تم تنہا کھڑا میں بھیگتے رہے ہیں اُس اِک یاد میں

میں کہیں اپنے آپ میں کھو گیا ہوں پھر سے
مجھے ڈھونڈ لاؤ میرے پاس میرے خیال سے

درد کے رشتوں میں وقت اور لفظوں کا تکلف کیسا؟
گلہ کرو میری بے حسی کا پھر اک بار تم مجھ سے

تیری یاد لوٹ آئی ہے پھر اک بار اے ہمسخن
میں پھر تیرے روبرو کھڑا ہوں اک گھمنڈ کی طرح

سوچ کے محور کو بدل کے دیکھ رہا ہوں اک بار پھر میں 
تیری یاد کے پہلو میں بھلا دیا پھر خود کو اک بار میں نے