Thursday, September 29, 2016

کسک

دل کے مسافات میں کہیں آج
پھر امید لاپتہ بھٹکتی ہے
پھر اک ہنگامہ ہے
سکوں کی تلاش میں گمسم سا میں
یادوں کے درمیاں 
اک خاموش تماشہ بنے بیٹھا ہوں
مجھ سے الجھتی 
خود سے لڑ تی اک سوچ
وقت سے کنارہ کش ہوکر
پھر بھٹکنے کا ارادہ رکھے ہے
جانے انجانے میں پھر میں
اُن منزلوں کی جانب رواں ہوں
جن خرابوں سے وابستہ
وہ اک شام 
بار بار اپنا روپ بدل بدل کر
مجھ سے ملتی ہے
میرے کہنے سے جو وقت
رک جاتا کبھی
آج اِس قدر خود سے دور اک ویرانہ نہ ہوتا
اک بیانباں کا ذکر کرتی ہے اب دنیا
اک میرا اور ایک تمھارا نام 
بدل بدل کر لوگ  سکوں و انتشار کا
ذکر کرتے ہیں
کبھی مجھ سے پوچھ کر 
کبھی مجھ سے روٹھ کر
چلے جانے والوں کا پتہ
پوچھتا ہے وقت
کہیں اندھیرے کونے میں چھپی
وہ کسک آج بھی بھٹک کر
میرے پاس آجاتی ہے


Monday, September 19, 2016

ذکر

آؤ بیٹھو کچھ خرابوں کا ذکر کرتے ہیں
کچھ اپنےکچھ زمانےکےستم کا ذکر کرتےہیں

جس سے مانگیں تھیں انگنت دعائیں میں نے
کچھ اپنے خدا سے شکایت کا ذکر کرتے ہیں

ایک ایک لمہہ جو گزارہ ہے تمھارے بغیر اے ہمدم
چلوکچھ اپنی کچھ تمھاری جفاؤں کا ذکر کرتے ہیں

اپنی خودی سے لڑ کر جو بیٹھا ہوں میں آج
تمھارے سچ کےانگنت  رنگوں کا ذکر کرتے ہیں

تم یہاں سےجانےکی بات اب ہرگز نہ کرو مجھ سے
اب اہلِ حرم تمھاری وفاؤں کا دن رات ذکر کرتے ہیں

میں خود سے ہار کر پھر اک بار جا رہا ہوں تجھ سے دور
خاموش ہیں شہر والے پھر بھی اک شخص کا ذکر کرتے ہیں

اب میں بھی خود سے کہتے کہتے تھک گیا ہوں گویا
آداب مہبت یہی ہےاب کہ تنہائی میں تیرا ذکر کرتے ہیں



Tuesday, September 13, 2016

اک خاموش سا رشتہ

کہہ دو نہ! کہ ایسا نہیں ہے 
ہاں میں تمھیں
تم مجھے
شدد سے یاد کرتے ہیں
اکثر میں
اپنی تنہائیوں میں
تم سے کہہ دیتا ہوں
وہ سب کچھ جو
میری سوچ میں مدفون ہے کب سے
زندگی کی رونکیں
روز کی الجھنیں
مجھے پھر تم سے چھین لیتی ہیں
پھر اس خودی کی تلاش میں
خود سے الجھ کر
تمھیں بھول گر
میں خود کو کہتے سنتا ہوں
شاید اب یہی مناسب ہے
کہ کہہ دو اپنے سے
کہ اب کہنے کو
شکؤں کے سوا
نہ میرے پاس
نہ تیرے پاس
کچھ بھی نہیں
اک خاموش سا رشتہ ہے
جسے میں اور تم 
کتنی مہبت سے نبھا رہے ہیں
اکیلے، اکیلے
تنہا تنہا

Tuesday, September 6, 2016

خود کلامی ۲

ایک دردِ مسلسل ہے ایک امیدِ جاں ہے ایک منتظرِ نظر ہے
میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد چلا جا رہا ہوں مستقل

مجھ سے کہنے کو اس کے پاس اک داستان تھی
کچھ میرادیوانہ پن رہاکچھ اُسے بھی ہچکچاہٹ رہی

سجدوں میں کھو کر جسے دل سے بھلا رہا ہوں میں
اپنےہاتھوں کی لکیروں میں ڈھونڈتا ہوں میں اُسے 
اکثر

جن اشاروں پہ جو یہ دل بہک جایا کرتا تھا میرا اکثر
اب وہی مچلنےکےبہانے ڈھونڈتا ہوں اپنی تنہائ میں

جس کے وجود کو سوچ کے سانچوں میں ڈھال رکھا ہے میں نے
وہ میری ذات کے کردار و گفتار کو تراش رہا ہے آج بھی ذرا ذرا

مجھ سے میری جفاؤں  کا حساب مانگ لو آج تم بھی اک بار
حجر کی راتوں، دعاؤں کے سلسلوں، امیدوں کے 
قافلوں کے لٹنے کے بعد

ذکررہا ہےتیرااپنےآپ سے کبھی کبھی تنہائ میں
میں منتظر ہوں ابتک اپنی خاموشی کے ٹوٹنے کا

مجھے چھین لو میری سوچ سے اک بار پھر تم
مجھےآج بھی تنہائ اچھی لگتی ہے کبھی کبھی