ایک دردِ مسلسل ہے ایک امیدِ جاں ہے ایک منتظرِ نظر ہے
میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد چلا جا رہا ہوں مستقل
کچھ میرادیوانہ پن رہاکچھ اُسے بھی ہچکچاہٹ رہی
سجدوں میں کھو کر جسے دل سے بھلا رہا ہوں میں
اپنےہاتھوں کی لکیروں میں ڈھونڈتا ہوں میں اُسے
اکثر
جن اشاروں پہ جو یہ دل بہک جایا کرتا تھا میرا اکثر
اب وہی مچلنےکےبہانے ڈھونڈتا ہوں اپنی تنہائ میں
جس کے وجود کو سوچ کے سانچوں میں ڈھال رکھا ہے میں نے
وہ میری ذات کے کردار و گفتار کو تراش رہا ہے آج بھی ذرا ذرا
مجھ سے میری جفاؤں کا حساب مانگ لو آج تم بھی اک بار
حجر کی راتوں، دعاؤں کے سلسلوں، امیدوں کے
قافلوں کے لٹنے کے بعد
ذکررہا ہےتیرااپنےآپ سے کبھی کبھی تنہائ میں
میں منتظر ہوں ابتک اپنی خاموشی کے ٹوٹنے کا
مجھے چھین لو میری سوچ سے اک بار پھر تم
مجھےآج بھی تنہائ اچھی لگتی ہے کبھی کبھی
No comments:
Post a Comment