Monday, August 29, 2016

اگست ۲۹ کی سرگوشی

اُس رات کی صبح نہ ہو سکی آج تک
وہ تمام شب اُس زماں میں روک رکھی ہے
جہاں اب سوچ کا گزر ممکن نہیں
جس کے گرد وقت پہرہ لگاۓ بیٹھا ہے
جس کی کھڑکی پہ کھڑے وہ لمہے آج بھی
مجھے الوداع کہنے کو تیار نہیں
بس یوں ہی مؤں موڑ کر
دامن کو چھڑا لینے سے پہلے
وقت اپنے قدموں کے نشاں
نقش کر گیا ہے
دلِ نامراد کی پاسبانی کیلۓ
نا معلوم سا ایک دلاسہ
اک ادھوری سی کسک 
وہ امید کا خاموشی سے کہنا روٹھ کر
کہاں تھے اب تک؟
کس کے ساتھ تھے؟
کس کے پاس تھے؟
وہ بے جا کی شکایتیں
وہ خوامخواہ
بات بے بات اداس رہنا
وہ منانے کے دس بہانے 
ناراض رہنے کی وہی دو باتیں 
تمھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے یاد ہے 
ذرا ذرا




No comments:

Post a Comment