Thursday, September 29, 2016

کسک

دل کے مسافات میں کہیں آج
پھر امید لاپتہ بھٹکتی ہے
پھر اک ہنگامہ ہے
سکوں کی تلاش میں گمسم سا میں
یادوں کے درمیاں 
اک خاموش تماشہ بنے بیٹھا ہوں
مجھ سے الجھتی 
خود سے لڑ تی اک سوچ
وقت سے کنارہ کش ہوکر
پھر بھٹکنے کا ارادہ رکھے ہے
جانے انجانے میں پھر میں
اُن منزلوں کی جانب رواں ہوں
جن خرابوں سے وابستہ
وہ اک شام 
بار بار اپنا روپ بدل بدل کر
مجھ سے ملتی ہے
میرے کہنے سے جو وقت
رک جاتا کبھی
آج اِس قدر خود سے دور اک ویرانہ نہ ہوتا
اک بیانباں کا ذکر کرتی ہے اب دنیا
اک میرا اور ایک تمھارا نام 
بدل بدل کر لوگ  سکوں و انتشار کا
ذکر کرتے ہیں
کبھی مجھ سے پوچھ کر 
کبھی مجھ سے روٹھ کر
چلے جانے والوں کا پتہ
پوچھتا ہے وقت
کہیں اندھیرے کونے میں چھپی
وہ کسک آج بھی بھٹک کر
میرے پاس آجاتی ہے


No comments:

Post a Comment