اداسی اپنی آخوش میں لے رہی ہے مجھےکسطرح رفتہ رفتہ
وہ میری حسرت ہی رہی اک خاموش خواہش کی طرح
مسکراتی آنکھوں کے سراب لوٹتے رہے رات بھر مجھے
تم سے الجھنے کے تو میرے پاس کئی بہانے ہیں اے ہمدم
تم سے وابستہ کتنی شامیں، اداس لمہےاور ٹھرے ہوئے کچھ پل
مجھ سے میرا آپ مخاطب ہو کر کہتا ہے اکثر تنہائی میں
نادان ، ناسمجھ تو اب بھی اس کمبخت دل کی سنتا ہے
میں خود کو کھو رہا ہوں پھر تمہارے سہر میں رفتہ رفتہ
اک تیری یاد اور دل کا سکوں دونوں ہی برباد ہو کر رہیں گے
میں تجھے تو بھول جاؤں پر اس ویرانے کا کیا کروں گا اس بار
سب سے خلوص سے ملا کرو، یہی کہتے تھے نہ تم
اب سب سے اچھے مراسم ہیں اس عبرت خانے میں
وہ میری حسرت ہی رہی اک خاموش خواہش کی طرح
مسکراتی آنکھوں کے سراب لوٹتے رہے رات بھر مجھے
تم سے الجھنے کے تو میرے پاس کئی بہانے ہیں اے ہمدم
تم سے وابستہ کتنی شامیں، اداس لمہےاور ٹھرے ہوئے کچھ پل
مجھ سے میرا آپ مخاطب ہو کر کہتا ہے اکثر تنہائی میں
نادان ، ناسمجھ تو اب بھی اس کمبخت دل کی سنتا ہے