آج پھر اداس سی اک شام آئی ہے برسوں کے بعد
پھر دل نے تمھیں بھلایا ہے اک بار برسوں کے بعد
بس اک یاد کا رشتہ ہے تم سے فقط باقی اب جاناں
وفاومہبت سچ وجھوٹ کوئی رنگ بامعنی نہیں رہے اب
وفاومہبت سچ وجھوٹ کوئی رنگ بامعنی نہیں رہے اب
لفظوں کی اُس مسلسل تکرار میں جذبوں کی برسات رہی
تنہا کھڑے تم تنہا کھڑا میں بھیگتے رہے ہیں اُس اِک یاد میں
میں کہیں اپنے آپ میں کھو گیا ہوں پھر سے
مجھے ڈھونڈ لاؤ میرے پاس میرے خیال سے
درد کے رشتوں میں وقت اور لفظوں کا تکلف کیسا؟
گلہ کرو میری بے حسی کا پھر اک بار تم مجھ سے
تیری یاد لوٹ آئی ہے پھر اک بار اے ہمسخن
میں پھر تیرے روبرو کھڑا ہوں اک گھمنڈ کی طرح
سوچ کے محور کو بدل کے دیکھ رہا ہوں اک بار پھر میں
تیری یاد کے پہلو میں بھلا دیا پھر خود کو اک بار میں نے