برسوں کے بعد سرِراہ وہ ادھورا شخص ملا مجھے
خاموش رہا بہت پر دیکھتا رہا دیر تک وہ مجھے
وقت لے آیا اس کے سامنے اک بار پھر مجھے
اداسیوں میں گم تنہا خاموش ہمسخن سا وہ لگا مجھے
میں کہتے کہتے پھر اک بار رک گیا ہوں اسکے روبرو
وہ پھر کہہ گیا ہے وقت سے اس بار تو چرا لو مجھے
میں سمجھا ہی نہیں سوچ کی اس قید کو اپنے تئیں
وہ مسلسل شدت سے سرِ شام اکثر یاد آتا ہے مجھے
میں دیکھتا ہوں اپنے وجود کو تنھاکھویا ہوا کبھی کبھی
میرا ہمزاد مجھ سے دور میرے ساتھ میرا سایہ لگا مجھے
میں بکھر رہا ہوں وقت کے اس موڑ پر تیرے روبرو
میں کوئی سمندر نہیں بس تیری سوچ ہوں سمیٹ لو مجھے