تم بھی وہی ہو
جو مجھ سا نہیں
ہاں بہت
مگر
کبھی کبھی اک یاد
ستاتی ہے
کاش تم بھی چاہتے
اپنے جنوں
اپنے سپنوں کی طرح
تم کہو
تم تو خوش ہو نا!
ہاں
لیکن
اک سوچ تنہا کر دیتی ہے
اکثر
بھیڑ میں
مسکراہٹوں کے اجالوں میں
بادلوں میں
تمہارے خیالوں میں
اور میں پھر کھو جاتا ہوں
وقت کے
ادھورے خوابوں کے
اَن ہی بازاروں میں
تم کہو
کیا اب بھی
آنکھیں موندے
یاد کرتے ہو؟
خوش رہتے ہو؟
ہاں اکثر
تنہائی کی محفلوں میں
خودی کے سلسلوں میں
انجانے سوالوں میں
خوش تو رہتا ہوں
پر کبھی کبھی
اک سوچ پوچھتی ہے
خوش تو ہو نا؟
تم سے بچھڑ کر
تم سے مُکر کر
مسکراہٹ میں دبی
اک اداس سوچ کی طرح
جس کی نہ منزل کوئی
جس کا نہ راستہ کوئی
ایک گونجتی انا کی طرح
مجھ سے کہتی ہے
تم خوش تو ہو نا؟