اپنی ذات میں گرفتار شخص دیکھا ہے
خود سے نا امید خدا ِ نامراد دیکھا ہے
جو بیاں نہ کرسکوں اپنا خیال تم سے
ایسا نا قابلِ حسبِ حال دیکھا ہے
نہ کہہ سکوں اور کہہ جاؤں اس طرح
خاموشی میں عجب یہ کمال دیکھا ہے
تم سے وابستہ لمحو ں کا حساب کیا لکھوں
قرض میں ڈوبا خود رہزنی کا جواب دیکھا ہے
میں تم سے کہوں بھی تو کیسے بھلا دل کا حال
ملالِ دل کیساتھ جنوں کا عالمِ شباب دیکھا ہے
No comments:
Post a Comment