میں ڈھونڈتا ہوں جسے زندگی کی رانائیوں میں
وہ مجھ سے ملتا ہے شاموں کی تنہائیوں میں
Thoughts of a wannabe compassionate observer....
بات جفاؤں کی نہیں بات وفاؤں کی بھی نہں
بات تو اُس وقت کی ہے جو تنہائیوں میں گزرا
میں خود سے تنہا لڑتا رہا میں خود سے جھگڑتا رہا
بات تو اُس ہار کی ہے جو خود سےمیں ہارتا رہا
بات نہ کبھی محبت کی تھی نہ کنھی عداوت کی تھی
بات استعاروں کےسمجھنے کی تھی نہ کہ کہنے سننے کی تھی
ان لمحوں کے احساس کا اب کیا ماتم منائیں ہم
سوگوار دنوں کا حساب تیرے بس کی بات تھی نہ میرے بس کی
رشتہِ
یہ چاند اور شبنم
سحر اور دھنک
تم سے رغبت کے یہ سلسلے
یہ ٹھرا ہوا وقت
یہ خاموش سی فضا
تم سے گفتگو کے چند بہانے ہی تو ہیں
یہ ادھوری باتیں
یہ بےغرض ملاقعاتیں
انجانے خوابوں کے تسلسل میں
چُھپی خوشبو کی اک بات
رنگوں سے عیاں بے رنگ سے چند خیال
محبت کے سلسلوں میں پھنسے
رشتوں کے بھنور سے پرے
کچھ دل کے پاس پاس
کچھ ذہن کے فتور سے دور دور
میرے تمہارے درمیان
جذبوں کےمدوجزر میں چھپا
سوال کرتا اک پہر
جسےنام نہ دو کسی رشتے کا
لامحدود سا یہ ایک تعلق
جس میں پریشاں نہ تم ہو نہ میں
رنجش کی کچھ ہی گنجائش رکھے
چند غم تمھارے
کچھ ٹوٹے خواب میرے
تھوڑے تم بانٹھ لو
کچھ میں بکھیر دیتاہوں
وقت سے کچھ اور لمہے
میں چرا لیتا ہوں
کچھ تم سمیٹ لینا
عامر جہانگیر
ایک وقت کی بات تھی
سو وہ وقت بھی آگیا
میں خود سے سوال کرتا رہا
میں خود کو خاموش سنتا رہا
نہ سچ میں نے لکھا
نہ سچ مجھ سے کہا گیا
ایک وقت کی بات تھی
سو وہ وقت بھی گزر گیا
میں اندھیروں میں خواب ٹٹولتا رہا
اور
وقت مجھے تراشتا رہا
میں وقت سے اور وقت مجھ سے کھیلتا رہا
خدا مجھ سے کہتا رہا
اور
میں خود سے خدا کا کام لیتا رہا
میں
بت توڑتا رہا
میں
بت بنتا رہا
ایک وقت کی بات تھی
سو یہ وقت برسوں ٹہرا رہا ۔
!میرا وطن میری ماں
اس دھرتی کی ماؤوں نے اس دیس کو سجا یا ہے
اپنے لال و گوہر سے حسیں بنایا ہے
اس مٹی میں کتنے انمول پھول کھلائے ہیں
اپنے خون و جگر سے مٹی کو زرخیز بنا یا ہے
دنیا میں تم کو اک شناخت دلائی ہے
سر اپنا سب سے اونچا اٹھا یا ہے
اک شان دلائی ہے
اس کے دریا اس کے صحرا
اس کا چپا چپا
اس کی خوشبو اس کا زرہ زرہ
جان و عدل سے عزیز
اس کی خاطر حاظرِ ہے جان
اس کی خاطر سب قربان
یہ ہے میری ماں
میں اس سے، یہ میری پہچان
یہ ہی تو ہے میرا پاکستان
یہ میرا دل یہ میری جان
یہ ہے میرا پاکستان
دنیا میں میری پہچان میری آن
میری شان
میرا پاکستان ، میرا پاکستان
اپنی ذات میں گرفتار شخص دیکھا ہے
خود سے نا امید خدا ِ نامراد دیکھا ہے
جو بیاں نہ کرسکوں اپنا خیال تم سے
ایسا نا قابلِ حسبِ حال دیکھا ہے
نہ کہہ سکوں اور کہہ جاؤں اس طرح
خاموشی میں عجب یہ کمال دیکھا ہے
تم سے وابستہ لمحو ں کا حساب کیا لکھوں
قرض میں ڈوبا خود رہزنی کا جواب دیکھا ہے
میں تم سے کہوں بھی تو کیسے بھلا دل کا حال
ملالِ دل کیساتھ جنوں کا عالمِ شباب دیکھا ہے
خودغرض
میں سو نہیں پاتا
میں خواب دیکھتا ہوں
خواب میں تمھیں دیکھتا ہوں
تمھاری باہوں میں خود کو دیکھتا ہوں
لپٹا ہوا ساکن بے جان سا
خود کو دیکھتاہوں
میں خود میں خود غرض دیکھتا ہوں
میں خود کو تم سے جدا دیکھتا ہوں
خود کو تنہا دیکھتا ہوں
خود کو لاپتہ دیکھتاہوں
میں خود کو خود میں دیکھتاہوں
خود میں تجھ کو دیکھتا ہوں
مئں سو نہیں پاتا
میں خواب دیکھتا ہوں
سوچوں کے شور میں
قدموں کی آہٹ سے جڑی دھڑکنوں میں
کچھ اس طرح کہ خاموشیاں انجان ہیں
تم اب نہیں ہو گماں میں میرے مگر
تم سا کوئی ہے بہروپ میں خاموش گر
میں جل رہا ہوں جس آگ میں سرِشام سے
سلگ رہی ہے مجھ میں مشعلِ راہ کی طرح
آنسوؤں سے بجھ نہ سکے پیاس صبح نو تک
سحر کے ٹوٹنے کاساماں ہوں یا ڈھلتاآفتاب ہوں
میں جنوں ہوں اک تیری سوچ کے سراب کا
وحشتوں میں کھویا ہوا نہ خیال ہوں نہ قرار ہوں
ملنے کی آس اور بچھڑنے کے گمان کے درمیاں
تلاشِ امیدِ نشاں ہوں اور بس منتظرِ گماں ہوں