نہ کوئی منزل ہے نہ کسی منزل کی جستجو ہے
اک سرابِ منزل ہے جس کی تلاش میں کھو گیا ہوں
وقت کے ہاتھوں گرفتار لمہوں کے درمیاں کہیں خاموش
ایک خوابِ مسلسل کی مستقل تلاش میں کھو گیا ہوں
جسے ڈھونڈ لوں میں اپنے آپ میں کھو کر
اُسی حقیقت کے فریب کی اب تو تلاش ہے
اپنی سوچ کے زخم دکھاؤں میں کس لئے
جسے دفنا دیا تھا کل پھراُس کی تلاش ہے
زندوں میں نہ مردوں میں جس کا شمار ہے
وہ حقیقت میں ہوں جس کی تجھے تلاش ہے
آج بھٹک جانے دے اے دل بس اُس کی یاد میں مسلسل
آج اس معصوم کی آنکھوں میں صرف اپنی تلاش ہے