دیکھو ہم رواں ہیں
زندگی کی رو میں ہم دونوں
رواں ہیں
غم سے دور مسکراہٹوں کے شہر میں
امید کی راہ پہ ہم رواں ہیں
تمہاری نظر اور میری فکر
ایک سوچ کا جھروکا
دور کر رہا ہے میرے کل کو
میرے آج سے
میری سوچ سے سمٹ رہی ہے
میر ے کل کی وہ امید
جس کے پل پل میں
تم ہو ، میں ہوں
اور ہمارے درمیان کا ایک رکا ہوا یہ اک پل ہے
جس سے میں جدا ہو رہا ہوں رفتا رفتا
تنہا تنہا
تھام لو مجھے تم پھر ایک بار
اُس ہی طرح سے
جیسے تم ہی تو ہو وہ
جسے میں سونپ دوں اپنے
زمیں آسماں
اپنا آج اور کل اور کل کے بعد کے وہ تمام دن
اور راتیں
جن کو تراش رہا ہوں میں اپنے وجود میں کھو کر
ذرا ذرا اور لمحہ لمحہ
کچھ اس طرح
جیسے تمھارا نام گنگنا رہا ہوں
ایک مایوس خدا کی طرح
جس کا آج اور کل
تاریک ہے
اک رات کی مسلسل خاموشی کی طرح
جس میں ہم چلے جا رہے ہیں
اک انجان رہ گزر پر
ساتھ ساتھ ایک ساتھ
ہم رواں ہیں
No comments:
Post a Comment