پھر امید لاپتہ بھٹکتی ہے
پھر اک ہنگامہ ہے
سکوں کی تلاش میں گمسم سا میں
یادوں کے درمیاں
اک خاموش تماشہ بنے بیٹھا ہوں
مجھ سے الجھتی
خود سے لڑ تی اک سوچ
وقت سے کنارہ کش ہوکر
پھر بھٹکنے کا ارادہ رکھے ہے
جانے انجانے میں پھر میں
اُن منزلوں کی جانب رواں ہوں
جن خرابوں سے وابستہ
وہ اک شام
بار بار اپنا روپ بدل بدل کر
مجھ سے ملتی ہے
میرے کہنے سے جو وقت
رک جاتا کبھی
آج اِس قدر خود سے دور اک ویرانہ نہ ہوتا
اک بیانباں کا ذکر کرتی ہے اب دنیا
اک میرا اور ایک تمھارا نام
بدل بدل کر لوگ سکوں و انتشار کا
ذکر کرتے ہیں
کبھی مجھ سے پوچھ کر
کبھی مجھ سے روٹھ کر
چلے جانے والوں کا پتہ
پوچھتا ہے وقت
کہیں اندھیرے کونے میں چھپی
وہ کسک آج بھی بھٹک کر
میرے پاس آجاتی ہے