Saturday, December 31, 2016

خواب گر

درد کے موسم میں ایک اور اکیلی شام ڈھلی ہے

یادوں کے ساون آئے ہیں اداسیوں کی جھڑی لگی ہے 

خود سے دورکہیں تنہا بیٹھا میں تجھ سے کہتا ہوں

میرے خواب گر مجھے بخش دے اپنے مکمل زمیں آسماں 

شعور و لاشعور کے درمیاں عقل و فہم سے دور دور

میں تیری تلاش میں گم دیوانہ وار خود سے ہمکلام ہوں

مجھے تھام لو وقت کے اس جھونکے میں اک بار پھر

میں سمٹ رہا ہوں اپنی انا کی کی یکجائی میں اک بار پھر

Tuesday, December 20, 2016

خود فریبی

روک لو وقت کو تھام کے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں آج تم

بہک نہ جاؤں وقت کےاس دھارے میں آج پھر میں تنہا

میری آنکھوں میں بسے خواب دیکھو اک بار تم بھی

اک جہاں ہے موسم کی طرح بدلتا روز و شب کسطرح

میری روح کی حقیقت عیاں ہے میری مسکراہٹوں میں

اک تماشہ ہے سو دیکھ لو جی بھر کے آج تم بھی

دل میں چھپی مسکان کاکسے علم نہیں  

سب رازداں ہیں گورکن کے شہر میں

اس بجھے دل میں اب تیری یاد کہاں بھٹکتی ہے کبھی

اک بازگشت ہےگئے دنوں کی جسے بلاۓ جارہا ہوں میں مسلسل

میں کیسے کہہ دوں کہ تم سے مہبت نہیں ہےاب مجھے

سچ کا سامنا کرنےکاحوصلہ نہ میرے پاس ہے نہ تیرے پاس

میں خود سے جھوٹ کہتا ہوں اب اکثر تنہائی میں

وہ میرا ہمسفر تھا عمر بھر کا بے وفا ہرگز نہ تھا 

میری آنکھیں آج بھی اُس کے خواب دیکھتی ہیں

وہ میرے پاس ہے گویا ہر شام پہلے ہی کی طرح

اس دل کو سمجھانے کی صرف بات نہیں ہے اے ہمدم

اب کچھ سوال یہ بھی پوچھتا ہے بددل ہو کر کبھی کبھی

تم مجھے یاد نہ آؤ اب یہی مناسب ہے 

اس درد کے رشتے کو کب تک نبھائیں گے

میری سوچ پہ حاوی آج بھی وہی حقیقت ہے

خاموش مسکراہٹ اجاڑآنکھیں اور چند بھٹکےآنسو

غمِ جاں سے وابستہ

 رنجشوں کے ہجوم سے نکل کر دیکھ اپنے روبرو

تو الفت کے سرہانے پڑی اک خواہش کا امین ہے

تیری پاکیزگی کی قسم کھانےکو تیار ہے وقت اب بھی

جو چلا گیااسےیاد کر اور پھر بھول جا اک خواب کی طرح

وقتِ رخصت مجھ سے لپٹ کے رویا تھا وہ اِس طرح

کہ حرجائی بھی میں ہوں منافق اور بےوفا بھی میں

میری آوراگی کچھ تو تیری شہرت کا بھی سبب بنےگی

تُو کس کس سےچھپائےگا دیوانہ ہے اک، صرف تیرےنام کا

عہدِ وفا کا تقاصہ ہے کے خاموش رہوں میں بھی

اک دل کے ٹوٹنے کی فقط بات نہیں ہے یہ صرف

مجھ سے مانگا ہے وفاؤں کا حساب تم نے آج پھر

دل کی دھڑکنوں سے پوچھ لو ان کی زباں کیا ہے

میرے خواب و خیال میں بسے ہو تم اس قدر سچائی سے

اب حقیقت اک مسلسل فریب محسوس ہوتی ہے گویا مجھے

میری امیدوں کا اک کارواں رواں ہے تیری جستجو میں

بھٹک جاتا ہوں میں اکثرستاروں کی راہ شناسائی میں اےہمدم

وابستہ ہے میرا عشق تیرے نام کیساتھ اس قدر جانِ جاں

میں خود سے بھی فریب کروں اگر تو یقیں نہیں آتا مجھے

کل کی خبر کس نے رکھی ہے آج تک اِس جنوں میں

اک تیرے نام کا سہارا لیئےزندگی کو جئیے جارہا ہوں

غمِ الفت نہ سہی اور بھی غمِ جاں ہیں ہمیں نبھانے کو

اک مسکراہٹ ہے تمہارے نام سے وابستہ سو بدنام ہیں 

میرے وجود کا ایک مکمل حصہ تم بھی تو ہو میری جاں

میں خود کو جھٹلاؤں اور بھول جاؤں اب یہی مناسب ہے

Tuesday, December 6, 2016

سچ!

دل میں احساسِ ندامت لیۓ جا رہا ہوں آج میں

اک نئی امیدِ صحر کی تلاش میں بھٹک کر گویا

جذبوں میں اب سچائ کہاں رہی ہمارے درمیاں

تم سے سچ کہوں مہبت تو اک بہانہ ہے مِلن کا