درد کے موسم میں ایک اور اکیلی شام ڈھلی ہے
یادوں کے ساون آئے ہیں اداسیوں کی جھڑی لگی ہے
خود سے دورکہیں تنہا بیٹھا میں تجھ سے کہتا ہوں
میرے خواب گر مجھے بخش دے اپنے مکمل زمیں آسماں
شعور و لاشعور کے درمیاں عقل و فہم سے دور دور
میں تیری تلاش میں گم دیوانہ وار خود سے ہمکلام ہوں
مجھے تھام لو وقت کے اس جھونکے میں اک بار پھر
میں سمٹ رہا ہوں اپنی انا کی کی یکجائی میں اک بار پھر
No comments:
Post a Comment