Tuesday, December 20, 2016

خود فریبی

روک لو وقت کو تھام کے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں آج تم
بہک نہ جاؤں وقت کےاس دھارے میں آج پھر میں تنہا

میری آنکھوں میں بسے خواب دیکھو اک بار تم بھی
اک جہاں ہے موسم کی طرح بدلتا روز و شب کسطرح

میری روح کی حقیقت عیاں ہے میری مسکراہٹوں میں
اک  تماشہ ہے سو دیکھ لو جی بھر کے آج تم بھی

دل میں چھپی مسکان کا اب کسے علم ہے 
کوئی رازداں نہیں ہے رہزن کے شہر میں

اس بجھے دل میں اب تیری یاد کہاں بھٹکتی ہے کبھی
اک بازگشت ہےگئے دنوں کی جسے بلاۓ جارہا ہوں میں مسلسل

میں کیسے کہہ دوں کہ تم سے مہبت نہیں ہےاب مجھے
سچ کا سامنا کرنےکاحوصلہ نہ میرے پاس ہے نہ تیرے پاس

میں خود سے جھوٹ کہتا ہوں اب اکثر تنہائی میں
وہ میرا ہمسفر تھا عمر بھر کا بے وفا ہرگز نہ تھا 

میری آنکھیں آج بھی اُس کے خواب دیکھتی ہیں
وہ میرے پاس ہے گویا ہر شام پہلے ہی کی طرح

اس دل کو سمجھانے کی صرف بات نہیں ہے اے ہمدم
اب کچھ سوال یہ بھی پوچھتا ہے بددل ہو کر کبھی کبھی

تم مجھے یاد نہ آؤ اب یہی مناسب ہے 
اس درد کے رشتے کو کب تک نبھائیں گے

میری سوچ پہ حاوی آج بھی وہی حقیقت ہے
خاموش مسکراہٹ اجاڑآنکھیں اور چند بھٹکےآنسو




No comments:

Post a Comment