رنجشوں کے ہجوم سے نکل کر دیکھ اپنے روبرو
تو الفت کے سرہانے پڑی اک خواہش کا امین ہے
تیری پاکیزگی کی قسم کھانےکو تیار ہے وقت اب بھی
جو چلا گیااسےیاد کر اور پھر بھول جا اک خواب کی طرح
وقتِ رخصت مجھ سے لپٹ کے رویا تھا وہ اِس طرح
کہ حرجائی بھی میں ہوں منافق اور بےوفا بھی میں
میری آوراگی کچھ تو تیری شہرت کا بھی سبب بنےگی
تُو کس کس سےچھپائےگا دیوانہ ہے اک، صرف تیرےنام کا
عہدِ وفا کا تقاصہ ہے کے خاموش رہوں میں بھی
اک دل کے ٹوٹنے کی فقط بات نہیں ہے یہ صرف
مجھ سے مانگا ہے وفاؤں کا حساب تم نے آج پھر
دل کی دھڑکنوں سے پوچھ لو ان کی زباں کیا ہے
میرے خواب و خیال میں بسے ہو تم اس قدر سچائی سے
اب حقیقت اک مسلسل فریب محسوس ہوتی ہے گویا مجھے
میری امیدوں کا اک کارواں رواں ہے تیری جستجو میں
بھٹک جاتا ہوں میں اکثرستاروں کی راہ شناسائی میں اےہمدم
وابستہ ہے میرا عشق تیرے نام کیساتھ اس قدر جانِ جاں
میں خود سے بھی فریب کروں اگر تو یقیں نہیں آتا مجھے
کل کی خبر کس نے رکھی ہے آج تک اِس جنوں میں
اک تیرے نام کا سہارا لیئےزندگی کو جئیے جارہا ہوں
غمِ الفت نہ سہی اور بھی غمِ جاں ہیں ہمیں نبھانے کو
اک مسکراہٹ ہے تمہارے نام سے وابستہ سو بدنام ہیں
میرے وجود کا ایک مکمل حصہ تم بھی تو ہو میری جاں
میں خود کو جھٹلاؤں اور بھول جاؤں اب یہی مناسب ہے
No comments:
Post a Comment