Thursday, November 24, 2016
چند سوچیں
Sunday, November 20, 2016
شیطان ہمکلام ہے
شیطان مجھ سے مخاطب ہے
بلاتا ہے بار بار مجھے
کہتا ہے قدم اٹھانے کو ایک بار مجھے
میں تجھ کو سنبھال لونگا بڑھ کے
تُو میری طرف قدم توَ اٹھا ایک بار
مجھ سے کہتا ہے بھیس بدل بدل کہ وہ
کبھی دل میں چھپ کر تو کبھی سامنے بیٹھ کر
میں خود کے بنائے اس حصار سے ڈرتا ہوں
کہیں جل نہ جائیں میرے قدم
اُس کا ہمقدم بننے سے پہلے
میں ڈرتا ہوں اس کے دکھاوۓ سے
کہیں یہ فقط ایک خواب ہی نہ ہو
دل و جاں کے اس امتحان سے پہلے
اس عملِ نافرمان سے پہلے
آزما لوں میں اپنا ایمان ایک بار پھر
اگر یہ آزمائش ہوئی پھر سے
اب کی بار میں بھی
قدم بہ قدم بڑھ جاؤں گا اس کی طرف
پھر وہ منزلیں میری تلاش میں ہونگی
پھر میرا طواف کریں گی یہ آزمائشیں
تھک جائیں گی اب کی بار
نامراد اس بار
اور میں سمٹ جاؤں گا اُس کی آخوش میں
خاموشی کے ساتھ
بھٹکتے لمہے
رسمِ الفت ہی سہی اک رشتہ تو ہے تجھ سے
میں تیرا وفادار نہ سہی ہرجائی بھی نہیں ہوں
وقت کے قدم لمہہ لمہہ آگے بڑھ رہے ہیں تیری طرف
اک وفا کا پُل ہے جسے سوچ کر خود ہی عبور کرنا ہے
میرےمحسن مجھےکہتے ہیں لوٹ جا خاموشی سے واپس
تو بھٹک گیا ہے خوامخواہ دل کے بہلانے کو آج پھر اک بار
بے نام سا رشتہ
میری نظرسےجو خود کو دیکھو گےکبھی چھپ کر
تم بھی بہک جاؤ گے اس بیابان میں میرے ساتھ
دل میں چھپی تمنا اور ایک بےنام سا یہ رشتہ
اس لاتعلق سے رشتے کو نام دے کر انجام نہ دو
میں خود سے دور اک الگ ہی دنیا میں رہتا ہوں
مجھ سے الجھنے سے پہلے میری دنیا تو دیکھو
میرے کہنے یا تیرے سننے کی بات ہرگز نہیں ہے یہ اے ہمدم
میں تم سےاورتم مجھ سے شاید یہ کبھی کہہ بھی نہ پائیں گے
میری سوچ پہ اب اُس کی اجارہ داری ہے آج کل
میں وقت کی طرح ٹھہر گیا ہوں جیسے اُس کے روبرو
Thursday, November 17, 2016
Wednesday, November 16, 2016
کھلونا
خود سے دور اور سوچ کے قریب کہیں تنہا تنہا
میرے منتظر میرے خواب مجھے بلاتے ہیں بار بار
مجھ سےکہتےسنتےسرگوشی کرتے یہ بےمقصد ارادے
لمہہ لمہہ اک اک کرتے گرتے ٹوٹتےلاوارث خواب ہی تو ہیں
میں خود سےکہتا ہوں مجھ سےبھی بات کر کبھی تُو
میں خود سے نالاں ہوں کب سے یہ یاد کر کبھی تُو
اک تیرا ذکر خود سے کرتے کرتے شبِ تنہائی میں
خود کو تیری پرچھائی سمجھنے لگا ہوں اب میں
یہ معصوم لمہے اور تمہارا کمزورکھلونے جیسا تنہا دل
دنیا یہی سمجھےگی حوص کی اک اور داستاں تمام ہوئی
میں سمجھوں گا اس کہانی کا انجام بھی تمام ہوا
جس کی شروعات اور اختطام اک فسانہ تھا درد بھرا
Sunday, November 6, 2016
اک نئ جستجو
خاموشی کا سکوت
شام کی اداسی
اندھیرے کمرے میں بند
چند آنسؤں کی خشک رم جھم
میری سوچ کے محور
یادوں کے گرداب
الجھنوں کی لڑی
مسکراتی نظر
اور ایک پیالی چائے
کیسا منظر ہے تجھ سے
ملاقات کا
زماں و مکاں سے دور
سوچ کے دریچوں کے درمیاں
میں آج بھی تم سے ملتا ہوں
گھڑی دو گھڑی کو سہی
حقیقت سے دور اک حقیقت کے ساتھ
ذرا ذرا، لمہہ لمہہ جوڑ کر
میں اک نیا خواب بُن رہا ہوں
Friday, November 4, 2016
شیشے کا گھر
Tuesday, November 1, 2016
امیدِ فکر
چہروں پہ لکھی کہانیاں
ایک ایک کرکے تمام خاموشاں
ایاں ہوتی رہی تو کچھ بیاں کرتی گئیں
ذکر رہا اُن لمہوں کا
گزرنے کا جن کے احساس
اک بازگشت کی طرح
دہراتا ہے بار بار ہر بار
کہنے کو ایک سرگوشی
پر وقت کی کہی وہ مدھم سی بات
دہرانے سے پہلے
تو کبھی
سننے کے بعد
اس موڑ پہ
کھڑے منتظر لمہے
وہ تمام ہمسفر
اپنی اپنی تھکان کا بوجھ لئیے
ایک ساتھ
تنہا تنہا رواں
جانبِ منزل
جستجوِ جاں میں مگن
کفنِ جاں کے منتظر
سفرِ مسلسل کے اختطام سے پہلے
اس جسم و جاں کے حساب سے پہلے
کہنے کی جو بات ہے
وہ صرف اتنی
ایک بے راہ کا ساتھ چاہئے
بے من کے انتظار میں فقت
تیرے اجالے کا دیدار چاہیۓ