Tuesday, November 1, 2016

امیدِ فکر


چہروں پہ لکھی کہانیاں

ایک ایک کرکے تمام خاموشاں

ایاں ہوتی رہی تو کچھ بیاں کرتی گئیں

ذکر رہا اُن لمہوں کا

گزرنے کا جن کے احساس

اک بازگشت کی طرح

دہراتا ہے بار بار ہر بار

کہنے کو ایک سرگوشی

پر وقت کی کہی وہ مدھم سی بات 

دہرانے سے پہلے

تو کبھی

سننے کے بعد

اس موڑ پہ

کھڑے منتظر لمہے

وہ تمام ہمسفر

اپنی اپنی تھکان کا بوجھ لئیے

ایک ساتھ

تنہا تنہا رواں 

جانبِ منزل

جستجوِ جاں میں مگن

کفنِ جاں کے منتظر 

سفرِ مسلسل کے اختطام سے پہلے

اس جسم و جاں کے حساب سے پہلے

کہنے کی جو بات ہے

وہ صرف اتنی

ایک بے راہ کا ساتھ چاہئے

بے من کے انتظار میں فقت

تیرے اجالے کا دیدار چاہیۓ





No comments:

Post a Comment