ہر پتھر سے چھپ کے زمانے کو برا کہتا ہوں
میرا ٹھکانہ اب کہیں نہیں ہے پِنہاں
میں ایک بنجارہ سا خود کی تلاش میں رہتا ہوں
مجھ سے کہنے کی بات اب نہیں کوئی خاص
ایک افسانہ ایک حقیقت میں خود سے بھی بدظن رہتا ہوں
نہ کوئی ادھورا سچ نہ مکمل جھوٹ
یہ ایک خاموش سا منظر، جس کے روبرو میں
لکھتے لکھتے تھک کر باآوازِبلند شہادت دیتا ہوں
میرا اختطام تم لکھ دو
میں اسے تسلیم کر لیتا ہوں
تم مجھے سنبھال لینا
میں تمھیں یہ حق بھی دیتا ہوں
میں خود سے لڑ کر اب گمسن سا رہتا ہوں
کچھ نئے تو کچھ پرانے ناموں کے حرف لکھتا رہتا ہوں
تم مجھ سے بدظن ہرگز نہ رہو
میں تم سے اپنی اور خود سے تمہاری بات کب کہتا ہوں؟
اب سمجھنے کی بات ایک ہی ہے ہمدم
میں خود کی ساختہ جنت میں سکوں سے اس حجوم میں رہتا ہوں
No comments:
Post a Comment