خود سے دور اور سوچ کے قریب کہیں تنہا تنہا
میرے منتظر میرے خواب مجھے بلاتے ہیں بار بار
مجھ سےکہتےسنتےسرگوشی کرتے یہ بےمقصد ارادے
لمہہ لمہہ اک اک کرتے گرتے ٹوٹتےلاوارث خواب ہی تو ہیں
میں خود سےکہتا ہوں مجھ سےبھی بات کر کبھی تُو
میں خود سے نالاں ہوں کب سے یہ یاد کر کبھی تُو
اک تیرا ذکر خود سے کرتے کرتے شبِ تنہائی میں
خود کو تیری پرچھائی سمجھنے لگا ہوں اب میں
یہ معصوم لمہے اور تمہارا کمزورکھلونے جیسا تنہا دل
دنیا یہی سمجھےگی حوص کی اک اور داستاں تمام ہوئی
میں سمجھوں گا اس کہانی کا انجام بھی تمام ہوا
جس کی شروعات اور اختطام اک فسانہ تھا درد بھرا
No comments:
Post a Comment