تجھے قرار شاید آج بھی نہ مل پائے گا
تیری جستجو کا اختتام آج بھی نہ ہو پاۓ گا
تجھ میں بسی خواہشوں کا ذکر کیسے کروں
انگنت لمہوں میں کتنی بار لٹا ہے تو
نہ اب کسی کاچہرہ یاد ہے اور نہ ہی کوئی نام
بس چند مسکراہٹوں کے نقش ہیں
جن پر وقت کی دھوپ
اپنا ہی رنگ چھوڑے جا رہی ہے
اے دل، آج اداس نہ ہو
تیری طرف کتنے ادہار کر رکھے ہیں میں نے
اور آج اکیلا ہی مقروض کھڑا ہوں
وقت کے اس چوراہے پہ
جہاں برسوں پہلے
تجھےتنہا چھوڑ آیا تھا
اور آج پھر
نہ دل جوئی کے لئے کوئی پاس ہے
نہ ہی کوئی ہاتھ
جو مرے سینے میں تجھے تلاش کرے
نہ ہی اب کسی کی طلب ہے
نہ ہی کسی کی جستجو
اے دل، آج اداس نہ ہو
سنا ہے جلد ہی ، انصاف ہوگا
ہر دکھ کا مداوہ ہوگا
ہر زخم کا حساب ہوگا
مہشر ہوگا
قتل عام ہوگا
ظالم کو سزا ہوگی
تیرے قاتل آئنگے
ہم سرعام
ہمکلام کرائے جائینگے
مورډ الظام ٹھیراے جائنگے
ہم منصب پہ بٹھائے جائنگے
ہمارے بھی سجدے کرائے جائنگے
لوگ ہمارے نام کی قسمیں اٹھائینگے
اپنے سچےو مخلص ہونےکا یقیں دلائینگے
اور ہم دل کے ماروں کو
پھر وہی
وعدۂ وفا کا ایک دلاسہ مل جائے گا
اک یقین مل جائے گا
اک ایمان مل جائے گا
اے دل، آج اداس نہ ہو
تیری بات سننے والے آئنگے
تجھے سمجھنے والے آئینگے
تجھے اپنی آخوش میں لیکر
پھر تنہا چھوڑ جانے والے آئنگے
اے دل، آج اداس نہ ہو
تجھے بھی تو
اب ایسے ہی رہنے کی عادت ہے
نہ ہی رسوائی کا ڈر
نہ کسی بات کی شکایت
سب نے سمجھ لیئں ہیں
تیری یہ عیاریاں
کہ، تجھے کسی کا غم نہی
تجھے، کسی کی تلاش نہیں
تو کسی کا منتظربھی تو نہیں
یہ سب تیرے ڈہونگ ہیں
پھر کسی کو جیتنے کی خواہش
پھر کسی کو لوٹنے کا ارادہ
اے دل، آج اداس نہ ہو
تو کامیاب آج بھی ہے
تو شاطر آج بھی ہے
تجھ سے سب پھر دھوکا کھائیں گے
تجھ پہ اعتبار سب کو ہوگا
تجھ سے پیار پھر اک بار ہوگا
اے دل، اب اداس رہنا چھوڑ دے
بس سمجھ لے
تو اکیلا ہے
تو برحق ہے
تو بے نیاز ہے
نہ تیرا کوئی ہے
نہ تجھ سے کوئی ہے
نہ تیرا مقابل کوئی ہے
اور یہاں کوئی تیرا ہمسر بھی نہیں ہے
No comments:
Post a Comment