Wednesday, June 8, 2016

سفرنامہ

سکونِ ذہن کی تلاش میں
آج پھر نکلا ہوں اک سفر پرمیں
تلاش ہے نہ کسی خوشی کی
نہ ہی جستجو کسی ہمقدم کی
اپنے اندر کےخدا کو ڈہونڈنے نکلا ہوں
رشتوں سے دور
تمناؤں سے الگ
تنہائیوں کے درمیاں
بس اپنی ذات سے ہمکلام ہوں
اے خدا مرے وجود کو ایسا کردے
کہ میں نکل جاؤں
اپنےحسار سے
اپنی خدّی کے مدار سے
کہ میں دیکھ پاؤں
ان اداس گیسؤں کو
جن کی راعنائی اب بھی 
مجھے کھینچھ لیتی ہیں
اپنی جانب
اپنی ادا سے 
اپنے مجسمِ حسن سے
اب بھی ان تاریک راتوں کی بازگشت
مجھے اکیلا کرجاتی ہے
اور پھر
ان معصوم آنکھوں کی نمی
ضمیر سے سوال کرتی ہےمرے
آخر کب تک
یہ رات چلے گی
کب صبح کا سورج نکلے گا
کب یہ وصل کی رات ڈھلے گی
امیدوں کے نگر سے جو پیغام آتے ہیں
اُن کےسلام آتے ہیں 
اِن پہ یقین کرنے کو جی چاہتا ہے
پر میں کیسے مان لوں
کیسے یقیں کرلوں
اپنی بے فریبی کا
اپنی حقیقت سےکیسے مؤں موڑ لوں
خاموشی سے اب پھرمیں
جانبِ منزل ہوں
ایک اور فریب کی تلاش میں
ایک اور منزل کی جستجو میں ۔





No comments:

Post a Comment