Wednesday, June 29, 2016

کہنے کو تو ہےا

ایک رکا ہوا لمحہ 
میری سوچ میں تیرے نام کیساتھ 
اک شام کی طرح 
کہیں نقش تو کہیں مِٹا مِٹا سا
کہنے کو تو ہے
کہیں چھپا
تو کہیں بے حجاب 
بے اختیار 
سوچ کے زاویئوں سے دور
اور دل کے پاس پاس
کہنے کو تو ہے
تیرے خیال سے جُڑی
دل کی خلش
کہیں چھپی
کہیں خاموش سی اک سرگوشی
مدھم مدھم سی
شور و نظر سے دور
کہنے کو تو ہے
شام کی بارش
اور بوندوں کی رم جِھم
ایک مسکراتی یاد
اور مِٹا مِٹا سا وہ تبسم 
جھلکتی آنکھوں سے بھٹکا
وہ ایک آنسو
کہنے کو تو ہے
موسم کی پہلی بارش
اور بادلوں سے جھانکتا یہ چاند
رات کے پچھلے پہر
یاد میری دلاۓ یا نہ دلاۓ
مشکل میں جان تیری
اور میری
کہنے کو تو ہے
مجھ سے میری جفاؤں کا حساب مانگو گے؟
میں تو الگ تھلگ
زمانے سے دور
تمہاری ہی یاد میں رہتا ہوں
کوئ نہیں ہے اب تیرے میرے درمیان
بس ایک وقت کی جدائ ہے، سو،
کہنے کو تو ہے
مِرا وہ ٹوٹتا گھمنڈ
اور چھوٹی سی ایک صد، تمھاری 
نہ میری وہ سوچ رہی
نہ اناء کی وہ مجبوریاں تمہاری
پر کچھ تیرے پاس 
کچھ میرے پاس
ایک شکوہ،ایک گلہ
کہنے کو تو ہے
میری آنکھوں میں بسی خاموشی
اور تمھارے دل کا یہ ویرانہ پن
گو ان کا شاید تعلق کچھ نہ ہو، پر
کچھ تو دکھانے کو
زمانے کو بتانے کو
کہنے کو تو ہے
نظر میں تیری ملال
اور میرا یہ دیوانہ پن
سب نے یہ سمجھ رکھا ہے
میرا تو کوئ حال ہی نہیں 
بس تری خاموشی باعثِ سبب ہے
ادھوری اس ویرانی کا
کچھ ہو، یا نہ ہو
کہنے کو تو ہے  


No comments:

Post a Comment