11 June, 2016 - Santa Ana, California, USA
جس کے سائے نے مجھے دھوپ میں چلنا سکھایا
جس نے ہر اداس موڑ پہ ہنسنا سکھایا
جس نے ہر ظلم سے لڑنا سکھایا
جس نے ہر ہر غم کو مسکراتے ہوئے سہنا سکھایا
کل تک جو مجھے بولنا سکھاتی تھی
آج مجھے پہچاننے کی مسلسل کوشش میں
اپنے کل اور آج کی دھوپ چھاؤں میں
کھئیں سہمی سہمی
تو کھیں کھوئی کھوئی سی نظر آتی ہے
اس کی ڈری سہمی سی آنکھیں
میرے وجود سے کہتی ہیں
مجھے کھینچ لو میرے ماضی سے
جہاں میں قید ہوں، اس تنہائی میں
سب سے الگ
سب سے جدا
اپنوں کے پاس
جو آج نا مجھ سے ملنے آتے ہیں
نہ مجھ سے بات کر پاتے ہیں
اک حصار ہے یادوں کا
اک سراب ہے اجالوں کا
میں اپنی اُس ماں سے مل کر بہت رویا
آج اِس کے دکھوں کو کیسے بانٹوں میں
جس کے دامن سے مجھے صرف مہبت ہی ملی ہے
میں تو جانتا بھی نہیں، کہ کیسے پکاروں گااُسے
جو ماضی کے گرداب میں اپنی ہی تلاش میں گم ہے
اس کے غموں کا حساب کس نے رکھا ہے؟
جس کےہاتھوں نے صرف ماں کی ممتا ہی بانٹی ہے
ہرلمہہ مجھ سے وہ دور ہوۓ جارہی ہے
اس کی ہر سانس جدائ کی صدا سناتی ہے
اک اک پل
اک اک بوند میری آنکھوں میں
ابھرتی، سِمٹتی، سسکتی
خاموش بے بسی کا مذاق اڑاتی ہے
میں کیسے اسے کہوں
ماں، مجھے آج بھی تیری ضرورت ہے
اپنی آخوش میں چھُپالے مجھ کو، کہ
میں آج بھی خوابوں کے ٹوٹنے سے ڈرتا ہوں
میں آج بھی اکیلے پن سے ڈرتا ہوں
آج بھی لوگ مرا مذاق اڑاتے ہیں
آج بھی لوگ مجھے ستاتے ہیں
مجھے آج بھی تیرے دوپٹّے میں چھُپنا ہے
مجھے آج بھی تیری لوری سننی ہے
مجھےکل بھی تیری دعا کی ضرورت تھی
مجھے آج بھی تیرے سائے کی ضرورت ہے
تو آج بھی خاموش آنکھوں سے دعا دیتی ہے
تو آج بھی مسکرا کر اپنے غم چھُپا لیتی ہے
اس کے دامن پہ سر رکھ کر
آج میں اپنی اُس ماں سے مل کر بہت رویا
No comments:
Post a Comment