اپنے اندر کے وجود سے
تمھاری زندگی میں آنے کی طلب میں
میں دستک دے رہا ہوں
اپنے اکیلے پن سے گھبرا کر
اپنی تنھائی سے موُں موڑ کر
تمھارے آستانے پہ
میں دستک دے رہا ہوں
اِس موڑ پہ، اس وقت میں
گمشدہ سا میں
اپنی ہی تلاش میں
میں دستک دے رہا ہوں
گبھرا کے
سب سے آنکھ بچا کے
دھک دھک کرتے
دل کی دھڑکن سے
میں دستک دے رہا ہوں
یہ خاموشیاں اور تمھارےنام کی
سرگوشیاں
اک، اک لمہے کو
گنتے، گنتے
ڈرتے، ڈرتے
میں دستک دے رہا ہوں
اپنے خوابوں کے ٹوٹنے سے پہلے
اس نیند سے جاگنے سے پہلے
اس صبح سے پہلے
تمھارے در پہ
میں دستک دے رہا ہوں
کون ہو تم اور کون ہوں میں
اس زمانے میں
اس ویرانے میں
نئ اداسیوں، نئ تنہائیوں
کے گوش گر
نہ تم رہے ہو، نہ میں
بس اک امیدِ چہاء لئے
میں دستک دے رہا ہوں
خالی ہاتھ، بے نم آنکھ
نا مراد دل، ساکت ہونٹ
اور اک خالی دامن کے ساتھ
خرابِ جاں کے لیئے
ایک دفعہ پھر
میں دستک دے رہا ہوں
No comments:
Post a Comment