Thursday, July 28, 2016

آج

آج

میں بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا
الفاظ سوچ کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں
میں کیسے بیان کروں وہ وحشت
جو مجھے پسند ہے
اس قدر کہ میں اس کا ذکر 
اب کسی سے نہیں کرتا
اپنی حوص کے اس شوق میں
میں اک الگ جہاں میں رہتا ہوں
جہاں کسی کا گزر
ممکن نہیں
سوچ اور گفتار کے درمیاں میں 
اس جنگ میں مسلسل اپنا احاطہ کر رہا ہوں
پھر بار بار یہ شوقِ تنہائی
مجھے اپنی آخوش میں لیکر 
کہتی ہے
بھول جا اُسے

Wednesday, July 27, 2016

بیوفا سے

تم سے اب کیا شکایت
تم سےاب کس بات کا شکوہ
اک ادھوری سی بات تھی
اک انا کا سوال تھا
جس کی جنگ میں 
تم بھی گرفتار تھے
میں بھی سرکش تھا
نہ تم ہارے اپنی بازی
نہ میں توڑ پایا اپنا غرور
اب اِس بات کو کہنے کی ضرورت
منافقت کے بہانیں ہیں سب
ملالِ جاں کوئی نہیں
نظرِ منتظر کچھ بھی نہیں
حقیقتِ وقت یہی ہے اب
صحبتِ دل میں اب کچھ بھی نہیں

ملاقعات

خشک موسم کی ہوا
اور ہمارے درمیان وہ خاموشی
تمھارے ہاتھوں کی نرمی
اور میرا روکھا مزاج
کہنے کو تو فقط
شام کی ایک ملاقعات تھی
پر اب بھی مجھے اکثر
جھنجھوڑ دیتی ہے
وہ ان کہی باتیں
اور اداس سی ٹوٹتی وہ اک مسکراہٹ
اب بھی نقش ہیں وہ سب 
میرے ارد گرد
ہر طرف ہر جگہ

Tuesday, July 26, 2016

خوف

یہ کیسا انجانہ خوف ہے
جو مجھے خود سے
دور لیئے جارہا ہے
میں رفتہ رفتہ
اپنے خواب لٹا رہا ہوں
ایک دھندلی سی حقیقت کیلئے
میں اپنی تمناؤں
کو سنبھال لوں ذرا
کہیں وقت کا رہزن
جکڑ نہ لے
مجھے میری خواہشات میں
سوچ کےچوراہے پہ کھڑا
اپنی خودی کی لاج بچانے کو میں
کتنی بار سرِ بازار بِک چکا ہوں 
اب تو کوئی خریدار بھی نہیں
سوچ کے اس حرم میں
سنگتراش سا میں
اپنے خدا بناتا، بگاڑتا ہوں
کچھ کے نام رکھ کر
کچھ کو بے نام چھوڑ کر
سجا رکھا ہے ان کو میں نے
اپنے اعتبار کیلۓ
جن میں سے کچھ 
اب بھی اثر رکھتے ہیں مجھ پر
ان کو کھونے سے
مجھ سے دور ہونے سے
میں گھبرا رہا ہوں
اس انجانے خوف میں
میں خود سے دور ہوا جارہا ہوں




Monday, July 25, 2016

خراب خواب

چلو مسکرائیں کہ دن آرہے ہیں تم سے ملاقعات کے
تمناؤں کا نشیمن اجڑے اب کچھ وقت ہو چکا ہے 

کوئی ایک مسکرانے کی وجہ ہو تو بتلاؤں تمھیں 
خرابوں میں بسےخوابوں کو کب تک سنبھالوں گا میں 

میرےدل کے خریدار شام سے بیٹھے ہیں
کوئی دام دےبہترتو پھر بِک جاؤں آج میں 

تم  سے غم کا رشتہ برسوں پرانا ہے
دل کوغم کی تلاش تھی سو تم مل گئے

میرے راستے میں کئی کہکشاں ہیں منتظر
میں ایک ایک کر کے ان پہ سفر کر رہا ہوں

ہرگز نہیں

تم سے ناراض میں ہرگز نہیں میری جاں
تم سااک شخص تھاجو پھر دل دُکھا گیا

دریچے

چند دن اور اسی طرح گزر جائیں گےاُس کے بغیر
جس کے ساتھ وقت تھم کر مجھے تھام لیتا تھا 

میں مسکراتی صبح سےمخاطب ہو کرکہتا ہوں
سہانی شام اور دلکش چاندنی میری منتظر ہے

مجھے ہرگز نہ روکو میری آرزؤں کےفریب سے
میں توایک بھٹکا مسافر ہوں، اور کیا بھٹکوں گا

مجھ میں اتر کر کبھی  تلاش کرو اپنا نام  بھی
ایک نگرہےتم سے وابستہ جس کامکیں کوئ اور ہے

تمھاری یاد کے کتنے بت خانے سجا رکھے ہیں میں نے
کچھ اب بھی آباد ہیں کچھ ڈھا دئے وقت نے خوامخواہ

تم سے مسلسل جنوں کا رشتہ قائم ہے
میں آواز دیتا ہوں تم میرے پاس چلےآنا 

اب کے مہبت کا برابر حساب ہم دونوں رکھیں گے
کون ہارا کون جیتا اب یہ زمانے کو نہیں کہنے دینا
****

شام - 7 مئی ۱۹۸۹

مجھ میں بھر دو رنگ
اُن لمہوں کا پھر سے
جن میں تنہائ نہ تھی
کوئ اداسی نہ تھی
سمؤ دو اُن تمام لمہوں کو
اُس ایک مسکراہٹ میں
جس پہ فدا تمام رعنائیاں تھیں
دیکھو ذرا اُس یاد کی ایک جھلک
جب تمھارے ہاتھوں میں
میں اپنا نام لکھ رہا ہوں
غم سے نا آشنا، اداسی سے دور
ڈوپتے سورج کی کرنوں میں جھلکتی شام
تمھاری زلفوں کی مہکتی خوشبو
جو ہرغم
کو اپنی آخوش میں لپیٹ لیتی
جب خواب ایک ایک کر کے 
آسمان پہ اجاگر ہوتے
ان لمہوں کو ایک ایک کر کے
پرو دو اک لڑی میں
جو میرے کَل کو جوڑ دے
میرےآج کے ساتھ
خوابوں کے اس ویرانے میں
وقت کے اس دشت میں
میں ڈھونڈ رہا ہوں
وہ پَل
جن سے منسلک
میں آج بھی
اپنی ذات میں گم ہوں 

Sunday, July 24, 2016

کہانی

کہنے کو تو ذرا
پر سہنے میں اک مشکل ہے
تکلیف کے یہ لمہے
تمھاری ہر بات کی
یاد دلاتے ہیں
کچھ بات میری ہے
کچھ بات تمھاری
بس چند لفظوں میں بسی
ناراض سی داستاں
تمھاری ہے
خاموش سی کہانی
میری ہے

Thursday, July 21, 2016

رخست

وقتِ رخست مجھ سے لپٹ کے رویا بہت تھا وہ
وہ شخص مجھے تھام کر سنبھلنے کا کہہ گیا
****
آنکھوں میں اس کے ملال ہر گز نہ تھا
چند آنسو تھمے تھے جو جھلکتےنہ تھے
****
میں خاموشی سےمسلسل اسے دیکھتا رہا ہوں
وہ مجھ سے مخاطب رہا پر ہمکلام نہ ہوا کبھی  
****
اس سے کہنے کو میرے پاس بہت کچھ آج بھی ہے
میں کہتا تو وہ سنتا، ہنستااور پھر روٹھ بھی جاتا 
****
شکایتوں کا ایک انبار میرے پاس بھی ہے
کچھ کہوں تو کُھو دوں اپنا بھرم پھر سے
****
جب  سے تیرے میرے راستے الگ ہوئے ہیں
نہ تجھے تیرا پتہ ہے نہ مجھے اپنی خبر ہے
****
نا معلوم منزلوں کی جانب اس سفر میں آج پھر
اُس سہارے کی تلاش ہےاور چندآنسوؤں کا حساب 
****
تم سے وابستہ ہر شام لوٹ آتی ہے اکثر
میں اکثر اس ہجوم میں تنہا نہیں رہتا پھر
****
تم سے اب کیا پردہ داری
دنیا سے وہی جھگڑا چل رہا ہے
اک وہی سوچ ہماری ہے 
اک وہی شکست جاری ہے
****
وہ میرے خواب کا حصہ تو کب سے تھا ہی
اب میری تدبیر میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے
****
مرے جنوں کی کہانی ہوئ پرانی
سنا ہےاب دیوانوں کا راج چلتا ہے
****
تیرے کہنے کو میں بھول چکا سارے غم
اب یہ عَلم میں نہیں کوئ اور اٹھائے گا
****



Wednesday, July 20, 2016

رشتہِ مہبت

یہ چاند اور شبنم
سہر اور دھنک 
تم سے رغبت کے یہ سلسلے
یہ ٹھرا ہوا وقت
یہ خاموش سی فضا
تم سے گفتگو کے چند بہانے ہی تو ہیں
یہ ادھوری باتیں
یہ بےغرض ملاقعاتیں
انجانے خوابوں کے تسلسل میں
چُھپی خوشبو کی اک بات
رنگوں سے عیاں بے رنگ سے چند خیال
مہبت کے سلسلوں میں پھنسے
رشتوں کے بھنور سے پرے
کچھ دل کے پاس پاس
کچھ ذہن کے فتور سے دور دور
میرے تمہارے درمیان
جذبوں کےمدوجزر میں چھپا
سوال کرتا اک پہر
جسےنام نہ دو کسی رشتے کا
لاوارث سا یہ ایک تعلق
جس میں پریشاں نہ تم ہو نہ میں
رنجش کی کچھ ہی گنجائش رکھے
چند غم تمھارے 
کچھ ٹوٹے خواب میرے
تھوڑے تم بانٹھ لو
کچھ میں بکھیر دیتاہوں
وقت سے کچھ لمہے
میں چرا لیتا ہوں
کچھ تم سمیٹ لینا

Song of Sorrows

One by one,
Shedding tears in despair,
My smile getting stiff,
With no expressions of now and then,
I become rigged to what I see and hear,
Looking for someone to be blamed,
In and outside of my thoughts,
I close my eyes,
Shutting out my inspirations, 
Humming a song of sorrows,
Hanging on to hope, 
I wishper a story of tomorrow 
To myself, 
Reassuring a believe in,
What I can't see or hear,
A voice buried deep inside me,
Shouts at me,
Stop deceiving!
You are not leaving, 
You are not leaving, 
I open my eyes, 
Silencing the voices,
I see teardrops on the pillow,
I see raindrops on the window
Smiling on the similarity, 
Humming the song of sorrows,
I am hanging on.....



Thursday, July 14, 2016

الجھن

اس دردِمسلس کی قسم
دل دھڑکتا ہے
اور کہتا ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس وقتِ بیوفا کی قسم
ہر دم
ہر پل
یہ یہی کہتا ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس صبحِ بے نور کی قسم
جو اماوس کی رات میں
ڈھل جاۓ گی
خود گواہی دے گی
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس وحشتِ دشت کی قسم
مجھ سے
میرا وجود
پوچھتا ہے
تمھیں یقین بھی ہے
کہ نہیں
یا صرف دنیا کو
دکھانے کو
زمانے کو بتانے کو
کہنے کو ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو


Tuesday, July 12, 2016

خود غرض

کتنا دلفریب ہےتو اور کتنا خودغرض ہوں میں
مجھے جلا رہا ہے تو اور جلا جا رہا ہوں میں


منزل

اِن راستوں کو بنتے،بگڑتے
پھر سنورتے دیکھا ہے
جن سے تم آؤ گے ٹھہرو گے
اور پھر لوٹ جاؤ گے
جن رعنائیوں کو
میں نےاپنی سوچ میں چھپا رکھا ہے
اُس سوچ کو جھٹلانے
اور پھر لوٹ جانے کو آؤ گے تو سہی
میں خاموشی سےایک طرف دیکھتا ہوں
مگر
نظر لوٹ جاتی ہے پھر اُس جانب 
بار بار
جہاں سے تمہاری یاس کھینچ لاتی ہے
اِس طرف
جہاں بیٹھا
میں اک نام لکھ رہا ہوں
بار بار
کتنا بھلاؤ گے تم مجھے
اور کتنا یاد نہ آؤں گا میں تمھیں
اس اناء کی آنکھ مچولی میں
نہ تم مجھے مکمل بھول پاؤ گے
نہ میں تمھیں مسلسل یاد رکھ پاؤں گا
بس چند لفظوں سے شروع ہوکر
چند لفظوں پہ ختم ہوگی
یہ ادھوری سی اک  کہانی 
مٹے مٹے سے نقوش ہونگے جس میں
اک نام تمہارا لکھا ہوگا
اک نام مرا لکھا ہوگا
اک اک کرکے ان ستاروں کو بھی تھام لو آج
جو تمھیں بھی بِھلاتے ہیں
اور مجھے بھی امید دلاتے ہیں
اب تو بس
تمہاری خوشبو
مجھے کھینچ لےجاتی ہےاُس جانب
اُن راستوں پر، اُن تمناؤں کے سراب میں
میں مسلسل بھٹکتا جاتا ہوں
ان منزلوں کی جانب
جن کے راستے میں کوئ کہکشاں نہیں
کوئ سہارا، کوئ ٹھکانہ نہیں
بس اک راستہ ہے نا پختہ سا
جو نامعلوم ویرانے کی جانب
اک سفرِ مسلسل ہے
جس کی کوئ منزل نہیں
جس پہ کوئ مسافر نیہں
ہمسفر نہیں
اورکوئ ہمدم بھی نہیں 


Monday, July 11, 2016

I fall in and out of love with you again and again

With each passing day,
When I miss you,
When I need you,
When you look at me,
And ask me to close my eyes,
And whisper in my ears,
Softness of your voice 
Touches my soul, and,
I fall in love with you,
And when I go away
You don't care how I miss you,
How I suffer from the lows in my life,
You remain indifferent to my sufferings,
You don't call my name, 
You leave my dreams alone,
And I miss you again and again,
I fall out of love with you,
And when I see you,
The vulnerable side of yours,
That you hide from everyone,
In the middle of the night,
When you call my name, 
Curled up against me,
You tell me,
Not to go again,
How your heart can not afford to miss me again,
You say that so seldom,
You hide what so often,
And I fall in love with you again,
How we repeat this,
Every time, 
We are together or apart,
How we cheat and lie,
How we proudly say to each other,
You don't matter,
I can take care of myself,
With or without you,
I fall in and out of love with you, 
Again and again

Friday, July 1, 2016

وقت سے

اے وقت آج تُجھ سے مخاطب ہوں
تو نے پھر آج
مجھ سے دغا کا ارادہ کر رکھا ہے
پھر تیرے نام پہ آج بِک جاؤں گا میں
پھر تیرے پہلو میں بسے شب و روز
کھو کر
پھر آرزؤں کے سراب میں گِھر جاؤں گا میں
اے وقت، مجھے برباد نا کر
تو نے مجھ سے وفا کی قسم کھائ تھی 
مجھے معلوم نہ تھا کہ تو 
تو اک بنجارا ہے
تیرا ٹھکانہ کوئ نہیں
تجھے روکنے والا کوئ نہیں
اے وقت مجھے چھوڑ کر مت جا
میں نے تجھے عمر بھر اپنا رفیق رکھا ہے
تجھے واسطہ ہے اُن لمہوں کا
جو تیرے ساتھ میں نے گزارے
ہر وہ دن
اور شب
وہ اک، اک لمہہ 
جس میں تری چاھ میں
ترے پیار میں
اپنوں کو چھوڑکر 
سب سے مؤں موڑ کر
کتنے دل توڑکر
کتنے شہر چھوڑ کر
سب کو بھلا کر
میں تیرے پیچھے چل پڑا تھا
اے وقت
میں تجھ سے وفا مانگتا ہوں 
چند گھڑیوں کا تھوڑا ساتھ اور مانگتا ہوں
اے وقت میں جانتا ہوں
تیرے اور بھی چاہنے والے ہیں
وہ بھی آج تجھ پر
اپنا سب کچھ لٹانےوالےہیں
میں تو تجھ سے فقط
تھوڑی سی مہلت مانگتا ہوں
اک ہوس ہے ماضی کی
جسے میں نے چھپا رکھا ہے
اے وقت مت جا
کہ میں اک بار پھر
اپنے خوابوں کا احاطہ کر لوں
میں نے سب کچھ کھو دیا ہے
تیری مہبت میں
اپنی دیوانگی میں
میں آج مجرم ہوں
اپنوں کا
جن سے چھپ کر
میں نے ضرف تیری طلب کی ہے
اے وقت مجھے اکیلا نہ چھوڑ
کہ میں آج  
تنہا ہوں
اپنے ماضی کے اس مزار کا
اس ویران قبرستان کا 
گورکن و مجاور میں ہوں 
اس ماتم کدے کا مہتمم بھی میں ہوں
یہاں کا وقت پرست پہرا گر بھی میں ہی ہوں
اے وقت کچھ دیر کو اور ٹھر جا
اے وقت لوٹ آ