Monday, July 25, 2016

دریچے

چند دن اور اسی طرح گزر جائیں گےاُس کے بغیر
جس کے ساتھ وقت تھم کر مجھے تھام لیتا تھا 

میں مسکراتی صبح سےمخاطب ہو کرکہتا ہوں
سہانی شام اور دلکش چاندنی میری منتظر ہے

مجھے ہرگز نہ روکو میری آرزؤں کےفریب سے
میں توایک بھٹکا مسافر ہوں، اور کیا بھٹکوں گا

مجھ میں اتر کر کبھی  تلاش کرو اپنا نام  بھی
ایک نگرہےتم سے وابستہ جس کامکیں کوئ اور ہے

تمھاری یاد کے کتنے بت خانے سجا رکھے ہیں میں نے
کچھ اب بھی آباد ہیں کچھ ڈھا دئے وقت نے خوامخواہ

تم سے مسلسل جنوں کا رشتہ قائم ہے
میں آواز دیتا ہوں تم میرے پاس چلےآنا 

اب کے مہبت کا برابر حساب ہم دونوں رکھیں گے
کون ہارا کون جیتا اب یہ زمانے کو نہیں کہنے دینا
****

No comments:

Post a Comment