Friday, July 1, 2016

وقت سے

اے وقت آج تُجھ سے مخاطب ہوں
تو نے پھر آج
مجھ سے دغا کا ارادہ کر رکھا ہے
پھر تیرے نام پہ آج بِک جاؤں گا میں
پھر تیرے پہلو میں بسے شب و روز
کھو کر
پھر آرزؤں کے سراب میں گِھر جاؤں گا میں
اے وقت، مجھے برباد نا کر
تو نے مجھ سے وفا کی قسم کھائ تھی 
مجھے معلوم نہ تھا کہ تو 
تو اک بنجارا ہے
تیرا ٹھکانہ کوئ نہیں
تجھے روکنے والا کوئ نہیں
اے وقت مجھے چھوڑ کر مت جا
میں نے تجھے عمر بھر اپنا رفیق رکھا ہے
تجھے واسطہ ہے اُن لمہوں کا
جو تیرے ساتھ میں نے گزارے
ہر وہ دن
اور شب
وہ اک، اک لمہہ 
جس میں تری چاھ میں
ترے پیار میں
اپنوں کو چھوڑکر 
سب سے مؤں موڑ کر
کتنے دل توڑکر
کتنے شہر چھوڑ کر
سب کو بھلا کر
میں تیرے پیچھے چل پڑا تھا
اے وقت
میں تجھ سے وفا مانگتا ہوں 
چند گھڑیوں کا تھوڑا ساتھ اور مانگتا ہوں
اے وقت میں جانتا ہوں
تیرے اور بھی چاہنے والے ہیں
وہ بھی آج تجھ پر
اپنا سب کچھ لٹانےوالےہیں
میں تو تجھ سے فقط
تھوڑی سی مہلت مانگتا ہوں
اک ہوس ہے ماضی کی
جسے میں نے چھپا رکھا ہے
اے وقت مت جا
کہ میں اک بار پھر
اپنے خوابوں کا احاطہ کر لوں
میں نے سب کچھ کھو دیا ہے
تیری مہبت میں
اپنی دیوانگی میں
میں آج مجرم ہوں
اپنوں کا
جن سے چھپ کر
میں نے ضرف تیری طلب کی ہے
اے وقت مجھے اکیلا نہ چھوڑ
کہ میں آج  
تنہا ہوں
اپنے ماضی کے اس مزار کا
اس ویران قبرستان کا 
گورکن و مجاور میں ہوں 
اس ماتم کدے کا مہتمم بھی میں ہوں
یہاں کا وقت پرست پہرا گر بھی میں ہی ہوں
اے وقت کچھ دیر کو اور ٹھر جا
اے وقت لوٹ آ


No comments:

Post a Comment