Wednesday, July 20, 2016

رشتہِ مہبت

یہ چاند اور شبنم
سہر اور دھنک 
تم سے رغبت کے یہ سلسلے
یہ ٹھرا ہوا وقت
یہ خاموش سی فضا
تم سے گفتگو کے چند بہانے ہی تو ہیں
یہ ادھوری باتیں
یہ بےغرض ملاقعاتیں
انجانے خوابوں کے تسلسل میں
چُھپی خوشبو کی اک بات
رنگوں سے عیاں بے رنگ سے چند خیال
مہبت کے سلسلوں میں پھنسے
رشتوں کے بھنور سے پرے
کچھ دل کے پاس پاس
کچھ ذہن کے فتور سے دور دور
میرے تمہارے درمیان
جذبوں کےمدوجزر میں چھپا
سوال کرتا اک پہر
جسےنام نہ دو کسی رشتے کا
لاوارث سا یہ ایک تعلق
جس میں پریشاں نہ تم ہو نہ میں
رنجش کی کچھ ہی گنجائش رکھے
چند غم تمھارے 
کچھ ٹوٹے خواب میرے
تھوڑے تم بانٹھ لو
کچھ میں بکھیر دیتاہوں
وقت سے کچھ لمہے
میں چرا لیتا ہوں
کچھ تم سمیٹ لینا

No comments:

Post a Comment