اُن لمہوں کا پھر سے
جن میں تنہائ نہ تھی
کوئ اداسی نہ تھی
سمؤ دو اُن تمام لمہوں کو
اُس ایک مسکراہٹ میں
جس پہ فدا تمام رعنائیاں تھیں
دیکھو ذرا اُس یاد کی ایک جھلک
جب تمھارے ہاتھوں میں
میں اپنا نام لکھ رہا ہوں
غم سے نا آشنا، اداسی سے دور
ڈوپتے سورج کی کرنوں میں جھلکتی شام
تمھاری زلفوں کی مہکتی خوشبو
جو ہرغم
کو اپنی آخوش میں لپیٹ لیتی
جب خواب ایک ایک کر کے
آسمان پہ اجاگر ہوتے
ان لمہوں کو ایک ایک کر کے
پرو دو اک لڑی میں
جو میرے کَل کو جوڑ دے
میرےآج کے ساتھ
خوابوں کے اس ویرانے میں
وقت کے اس دشت میں
میں ڈھونڈ رہا ہوں
وہ پَل
جن سے منسلک
میں آج بھی
اپنی ذات میں گم ہوں
No comments:
Post a Comment