جو مجھے خود سے
دور لیئے جارہا ہے
میں رفتہ رفتہ
اپنے خواب لٹا رہا ہوں
ایک دھندلی سی حقیقت کیلئے
میں اپنی تمناؤں
کو سنبھال لوں ذرا
کہیں وقت کا رہزن
جکڑ نہ لے
مجھے میری خواہشات میں
سوچ کےچوراہے پہ کھڑا
اپنی خودی کی لاج بچانے کو میں
کتنی بار سرِ بازار بِک چکا ہوں
اب تو کوئی خریدار بھی نہیں
سوچ کے اس حرم میں
سنگتراش سا میں
اپنے خدا بناتا، بگاڑتا ہوں
کچھ کے نام رکھ کر
کچھ کو بے نام چھوڑ کر
سجا رکھا ہے ان کو میں نے
اپنے اعتبار کیلۓ
جن میں سے کچھ
اب بھی اثر رکھتے ہیں مجھ پر
ان کو کھونے سے
مجھ سے دور ہونے سے
میں گھبرا رہا ہوں
اس انجانے خوف میں
میں خود سے دور ہوا جارہا ہوں
No comments:
Post a Comment