Tuesday, July 26, 2016

خوف

یہ کیسا انجانہ خوف ہے
جو مجھے خود سے
دور لیئے جارہا ہے
میں رفتہ رفتہ
اپنے خواب لٹا رہا ہوں
ایک دھندلی سی حقیقت کیلئے
میں اپنی تمناؤں
کو سنبھال لوں ذرا
کہیں وقت کا رہزن
جکڑ نہ لے
مجھے میری خواہشات میں
سوچ کےچوراہے پہ کھڑا
اپنی خودی کی لاج بچانے کو میں
کتنی بار سرِ بازار بِک چکا ہوں 
اب تو کوئی خریدار بھی نہیں
سوچ کے اس حرم میں
سنگتراش سا میں
اپنے خدا بناتا، بگاڑتا ہوں
کچھ کے نام رکھ کر
کچھ کو بے نام چھوڑ کر
سجا رکھا ہے ان کو میں نے
اپنے اعتبار کیلۓ
جن میں سے کچھ 
اب بھی اثر رکھتے ہیں مجھ پر
ان کو کھونے سے
مجھ سے دور ہونے سے
میں گھبرا رہا ہوں
اس انجانے خوف میں
میں خود سے دور ہوا جارہا ہوں




No comments:

Post a Comment