Tuesday, July 12, 2016

منزل

اِن راستوں کو بنتے،بگڑتے
پھر سنورتے دیکھا ہے
جن سے تم آؤ گے ٹھہرو گے
اور پھر لوٹ جاؤ گے
جن رعنائیوں کو
میں نےاپنی سوچ میں چھپا رکھا ہے
اُس سوچ کو جھٹلانے
اور پھر لوٹ جانے کو آؤ گے تو سہی
میں خاموشی سےایک طرف دیکھتا ہوں
مگر
نظر لوٹ جاتی ہے پھر اُس جانب 
بار بار
جہاں سے تمہاری یاس کھینچ لاتی ہے
اِس طرف
جہاں بیٹھا
میں اک نام لکھ رہا ہوں
بار بار
کتنا بھلاؤ گے تم مجھے
اور کتنا یاد نہ آؤں گا میں تمھیں
اس اناء کی آنکھ مچولی میں
نہ تم مجھے مکمل بھول پاؤ گے
نہ میں تمھیں مسلسل یاد رکھ پاؤں گا
بس چند لفظوں سے شروع ہوکر
چند لفظوں پہ ختم ہوگی
یہ ادھوری سی اک  کہانی 
مٹے مٹے سے نقوش ہونگے جس میں
اک نام تمہارا لکھا ہوگا
اک نام مرا لکھا ہوگا
اک اک کرکے ان ستاروں کو بھی تھام لو آج
جو تمھیں بھی بِھلاتے ہیں
اور مجھے بھی امید دلاتے ہیں
اب تو بس
تمہاری خوشبو
مجھے کھینچ لےجاتی ہےاُس جانب
اُن راستوں پر، اُن تمناؤں کے سراب میں
میں مسلسل بھٹکتا جاتا ہوں
ان منزلوں کی جانب
جن کے راستے میں کوئ کہکشاں نہیں
کوئ سہارا، کوئ ٹھکانہ نہیں
بس اک راستہ ہے نا پختہ سا
جو نامعلوم ویرانے کی جانب
اک سفرِ مسلسل ہے
جس کی کوئ منزل نہیں
جس پہ کوئ مسافر نیہں
ہمسفر نہیں
اورکوئ ہمدم بھی نہیں 


No comments:

Post a Comment