Saturday, December 31, 2016

خواب گر

درد کے موسم میں ایک اور اکیلی شام ڈھلی ہے

یادوں کے ساون آئے ہیں اداسیوں کی جھڑی لگی ہے 

خود سے دورکہیں تنہا بیٹھا میں تجھ سے کہتا ہوں

میرے خواب گر مجھے بخش دے اپنے مکمل زمیں آسماں 

شعور و لاشعور کے درمیاں عقل و فہم سے دور دور

میں تیری تلاش میں گم دیوانہ وار خود سے ہمکلام ہوں

مجھے تھام لو وقت کے اس جھونکے میں اک بار پھر

میں سمٹ رہا ہوں اپنی انا کی کی یکجائی میں اک بار پھر

Tuesday, December 20, 2016

خود فریبی

روک لو وقت کو تھام کے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں آج تم

بہک نہ جاؤں وقت کےاس دھارے میں آج پھر میں تنہا

میری آنکھوں میں بسے خواب دیکھو اک بار تم بھی

اک جہاں ہے موسم کی طرح بدلتا روز و شب کسطرح

میری روح کی حقیقت عیاں ہے میری مسکراہٹوں میں

اک تماشہ ہے سو دیکھ لو جی بھر کے آج تم بھی

دل میں چھپی مسکان کاکسے علم نہیں  

سب رازداں ہیں گورکن کے شہر میں

اس بجھے دل میں اب تیری یاد کہاں بھٹکتی ہے کبھی

اک بازگشت ہےگئے دنوں کی جسے بلاۓ جارہا ہوں میں مسلسل

میں کیسے کہہ دوں کہ تم سے مہبت نہیں ہےاب مجھے

سچ کا سامنا کرنےکاحوصلہ نہ میرے پاس ہے نہ تیرے پاس

میں خود سے جھوٹ کہتا ہوں اب اکثر تنہائی میں

وہ میرا ہمسفر تھا عمر بھر کا بے وفا ہرگز نہ تھا 

میری آنکھیں آج بھی اُس کے خواب دیکھتی ہیں

وہ میرے پاس ہے گویا ہر شام پہلے ہی کی طرح

اس دل کو سمجھانے کی صرف بات نہیں ہے اے ہمدم

اب کچھ سوال یہ بھی پوچھتا ہے بددل ہو کر کبھی کبھی

تم مجھے یاد نہ آؤ اب یہی مناسب ہے 

اس درد کے رشتے کو کب تک نبھائیں گے

میری سوچ پہ حاوی آج بھی وہی حقیقت ہے

خاموش مسکراہٹ اجاڑآنکھیں اور چند بھٹکےآنسو

غمِ جاں سے وابستہ

 رنجشوں کے ہجوم سے نکل کر دیکھ اپنے روبرو

تو الفت کے سرہانے پڑی اک خواہش کا امین ہے

تیری پاکیزگی کی قسم کھانےکو تیار ہے وقت اب بھی

جو چلا گیااسےیاد کر اور پھر بھول جا اک خواب کی طرح

وقتِ رخصت مجھ سے لپٹ کے رویا تھا وہ اِس طرح

کہ حرجائی بھی میں ہوں منافق اور بےوفا بھی میں

میری آوراگی کچھ تو تیری شہرت کا بھی سبب بنےگی

تُو کس کس سےچھپائےگا دیوانہ ہے اک، صرف تیرےنام کا

عہدِ وفا کا تقاصہ ہے کے خاموش رہوں میں بھی

اک دل کے ٹوٹنے کی فقط بات نہیں ہے یہ صرف

مجھ سے مانگا ہے وفاؤں کا حساب تم نے آج پھر

دل کی دھڑکنوں سے پوچھ لو ان کی زباں کیا ہے

میرے خواب و خیال میں بسے ہو تم اس قدر سچائی سے

اب حقیقت اک مسلسل فریب محسوس ہوتی ہے گویا مجھے

میری امیدوں کا اک کارواں رواں ہے تیری جستجو میں

بھٹک جاتا ہوں میں اکثرستاروں کی راہ شناسائی میں اےہمدم

وابستہ ہے میرا عشق تیرے نام کیساتھ اس قدر جانِ جاں

میں خود سے بھی فریب کروں اگر تو یقیں نہیں آتا مجھے

کل کی خبر کس نے رکھی ہے آج تک اِس جنوں میں

اک تیرے نام کا سہارا لیئےزندگی کو جئیے جارہا ہوں

غمِ الفت نہ سہی اور بھی غمِ جاں ہیں ہمیں نبھانے کو

اک مسکراہٹ ہے تمہارے نام سے وابستہ سو بدنام ہیں 

میرے وجود کا ایک مکمل حصہ تم بھی تو ہو میری جاں

میں خود کو جھٹلاؤں اور بھول جاؤں اب یہی مناسب ہے

Tuesday, December 6, 2016

سچ!

دل میں احساسِ ندامت لیۓ جا رہا ہوں آج میں

اک نئی امیدِ صحر کی تلاش میں بھٹک کر گویا

جذبوں میں اب سچائ کہاں رہی ہمارے درمیاں

تم سے سچ کہوں مہبت تو اک بہانہ ہے مِلن کا

Thursday, November 24, 2016

چند سوچیں

مجھ سے تیری کیا پردہ داری ہے اے میرے رفیق 
تیری منزل نہیں، ہمسفر نہیں، تیری رہ گزر تو ہوں

اس میری سوچ کا بھرم تو بھی رکھ لے اب کی بار 
کہ میں تیری ضرورت نہیں اک خواہشِ نامکمل ہوں 


Sunday, November 20, 2016

شیطان ہمکلام ہے

شیطان مجھ سے مخاطب ہے

بلاتا ہے بار بار مجھے

کہتا ہے قدم اٹھانے کو ایک بار مجھے

میں تجھ کو سنبھال لونگا بڑھ کے

تُو میری طرف قدم توَ اٹھا ایک بار

مجھ سے کہتا ہے بھیس بدل بدل کہ وہ

کبھی دل میں چھپ کر تو کبھی سامنے بیٹھ کر 

میں خود کے بنائے اس حصار سے ڈرتا ہوں

کہیں جل نہ جائیں میرے قدم

اُس کا ہمقدم بننے سے پہلے

میں ڈرتا ہوں اس کے دکھاوۓ سے

کہیں یہ فقط ایک خواب ہی نہ ہو

دل و جاں کے اس امتحان سے پہلے

اس عملِ نافرمان سے پہلے

آزما لوں میں اپنا ایمان ایک بار پھر

اگر یہ آزمائش ہوئی پھر سے

اب کی بار میں بھی 

قدم بہ قدم بڑھ جاؤں گا اس کی طرف

پھر وہ منزلیں میری تلاش میں ہونگی

پھر میرا طواف کریں گی یہ آزمائشیں

تھک جائیں گی اب کی بار

نامراد اس بار

اور میں سمٹ جاؤں گا اُس کی آخوش میں

خاموشی کے ساتھ

بھٹکتے لمہے

رسمِ الفت ہی سہی اک رشتہ تو ہے تجھ سے

میں تیرا وفادار نہ سہی ہرجائی بھی نہیں ہوں

وقت کے قدم لمہہ لمہہ آگے بڑھ رہے ہیں تیری طرف

اک وفا کا پُل ہے جسے سوچ کر خود ہی عبور کرنا ہے 

میرےمحسن مجھےکہتے ہیں لوٹ جا خاموشی سے واپس

تو بھٹک گیا ہے خوامخواہ دل کے بہلانے کو آج پھر اک بار

بے نام سا رشتہ

میری نظرسےجو خود کو دیکھو گےکبھی چھپ کر

تم بھی بہک جاؤ گے اس بیابان میں میرے ساتھ 

دل میں چھپی تمنا اور ایک بےنام سا یہ رشتہ

اس لاتعلق سے رشتے کو نام دے کر انجام نہ دو

میں خود سے دور اک الگ ہی دنیا میں رہتا ہوں

مجھ سے الجھنے سے پہلے میری دنیا تو دیکھو

میرے کہنے یا تیرے سننے کی بات ہرگز نہیں ہے یہ اے ہمدم

میں تم سےاورتم مجھ سے شاید یہ کبھی کہہ بھی نہ پائیں گے

میری سوچ پہ اب اُس کی اجارہ داری ہے آج کل

میں وقت کی طرح ٹھہر گیا ہوں جیسے اُس کے روبرو

Thursday, November 17, 2016

یقیں

مجھ سے میرا یقین کہتا ہے

ایک بار پھر سوچ لے

تیری عداوت تجھے برباد نہ کردے

Wednesday, November 16, 2016

کھلونا

 خود سے دور اور سوچ کے قریب کہیں تنہا تنہا

میرے منتظر میرے خواب مجھے بلاتے ہیں بار بار

مجھ سےکہتےسنتےسرگوشی کرتے یہ بےمقصد ارادے

لمہہ لمہہ اک اک کرتے گرتے ٹوٹتےلاوارث خواب ہی تو ہیں

میں خود سےکہتا ہوں مجھ سےبھی بات کر کبھی تُو

میں خود سے نالاں ہوں کب سے یہ یاد کر کبھی تُو

اک تیرا ذکر خود سے کرتے کرتے شبِ تنہائی میں

خود کو تیری پرچھائی سمجھنے لگا ہوں اب میں

یہ معصوم لمہے اور تمہارا کمزورکھلونے جیسا تنہا دل

دنیا یہی سمجھےگی حوص کی اک اور داستاں تمام ہوئی

میں سمجھوں گا اس کہانی کا انجام بھی تمام ہوا

جس کی شروعات اور اختطام اک فسانہ تھا درد بھرا

Sunday, November 6, 2016

اک نئ جستجو

خاموشی کا سکوت

شام کی اداسی

اندھیرے کمرے میں بند

چند آنسؤں کی خشک رم جھم

میری سوچ کے محور 

یادوں کے گرداب

الجھنوں کی لڑی

مسکراتی نظر

اور ایک پیالی چائے

کیسا منظر ہے تجھ سے

ملاقات کا

زماں و مکاں سے دور

سوچ کے دریچوں کے درمیاں

میں آج بھی تم سے ملتا ہوں

گھڑی دو گھڑی کو سہی

حقیقت سے دور اک حقیقت کے ساتھ

ذرا ذرا، لمہہ لمہہ جوڑ کر

میں اک نیا خواب بُن رہا ہوں

Friday, November 4, 2016

شیشے کا گھر

میں شیشے کے گھر میں رہتا ہوں
ہر پتھر سے چھپ کے زمانے کو برا کہتا ہوں
میرا ٹھکانہ اب کہیں نہیں ہے پِنہاں
میں ایک بنجارہ سا خود کی تلاش میں رہتا ہوں
مجھ سے کہنے کی بات اب نہیں کوئی خاص
ایک افسانہ ایک حقیقت میں خود سے بھی بدظن رہتا ہوں
نہ کوئی ادھورا سچ نہ مکمل جھوٹ
یہ ایک خاموش سا منظر، جس کے روبرو میں
لکھتے لکھتے تھک کر باآوازِبلند شہادت دیتا ہوں
میرا اختطام تم لکھ دو
میں اسے تسلیم کر لیتا ہوں
تم مجھے سنبھال لینا
میں تمھیں یہ حق بھی دیتا ہوں
میں خود سے لڑ کر اب گمسن سا رہتا ہوں
کچھ نئے تو کچھ پرانے ناموں کے حرف لکھتا رہتا ہوں
تم مجھ سے بدظن ہرگز نہ رہو 
میں تم سے اپنی اور خود سے تمہاری بات کب کہتا ہوں؟
اب سمجھنے کی بات ایک ہی ہے ہمدم
میں خود کی ساختہ جنت میں سکوں سے اس حجوم میں رہتا ہوں

Tuesday, November 1, 2016

امیدِ فکر


چہروں پہ لکھی کہانیاں

ایک ایک کرکے تمام خاموشاں

ایاں ہوتی رہی تو کچھ بیاں کرتی گئیں

ذکر رہا اُن لمہوں کا


گزرنے کا جن کے احساس


اک بازگشت کی طرح


دہراتا ہے بار بار ہر بار


کہنے کو ایک سرگوشی


پر وقت کی کہی وہ مدھم سی بات 


دہرانے سے پہلے


تو کبھی


سننے کے بعد


اس موڑ پہ


کھڑے منتظر لمہے


وہ تمام ہمسفر


اپنی اپنی تھکان کا بوجھ لئیے


ایک ساتھ


تنہا تنہا رواں 


جانبِ منزل


جستجوِ جاں میں مگن


کفنِ جاں کے منتظر 


سفرِ مسلسل کے اختطام سے پہلے


اس جسم و جاں کے حساب سے پہلے


کہنے کی جو بات ہے


وہ صرف اتنی


ایک بے راہ کا ساتھ چاہئے


بے من کے انتظار میں فقت

تیرے اجالے کا دیدار چاہیۓ

Monday, October 24, 2016

میں!

خود کبھی گرفتار نہ ہوسکا جو اپنے اندازِ گفتار میں
میں اُسی ادھوری داستان کی ایک مکمل کتاب ہوں۔

Monday, October 3, 2016

تنہائیوں کے ہجوم میں

میں آج  خود سے دور اس حجوم میں بیٹھا ہوں
وقت کا ہر لمہہ میرے تعاقب میں مجھے ڈھونڈتا ہے

ہمذات مجھ سے مخاطب ہے سرِ محفل  تنہائی میں
ذکر رہا ہےکچھ ذہن کےفتور کچھ اپنے بےجاغرور کا

یاد کر رہا ہوں خوشی کےوہ لمہے شبِ تنہا ئی میں
لُٹا چکاہوں جو پل تلاشِ منزل کی جستجو میں اک صبح میں

تجھ سے بات کرنے کو در و دیوار ہی تو تھے ضرف میرے پاس
اب کامرانیاں مجھے ہجھوم میں اکیلا کیئےجاتی ہیں بار بار

میں اکیلا ہی رواں ہوں اپنے خدا کی تلاش میں اب
اک حقیقت سے بھاگ کر اک حقیقت کی تلاش میں

میرے سجدوں کو بخش دو اک گناہ کی تعبیرتم بھی
میں مسجودِ تکبر ہوں کوئی رعیا کار نہیں ہوں میں






Thursday, September 29, 2016

کسک

دل کے مسافات میں کہیں آج
پھر امید لاپتہ بھٹکتی ہے
پھر اک ہنگامہ ہے
سکوں کی تلاش میں گمسم سا میں
یادوں کے درمیاں 
اک خاموش تماشہ بنے بیٹھا ہوں
مجھ سے الجھتی 
خود سے لڑ تی اک سوچ
وقت سے کنارہ کش ہوکر
پھر بھٹکنے کا ارادہ رکھے ہے
جانے انجانے میں پھر میں
اُن منزلوں کی جانب رواں ہوں
جن خرابوں سے وابستہ
وہ اک شام 
بار بار اپنا روپ بدل بدل کر
مجھ سے ملتی ہے
میرے کہنے سے جو وقت
رک جاتا کبھی
آج اِس قدر خود سے دور اک ویرانہ نہ ہوتا
اک بیانباں کا ذکر کرتی ہے اب دنیا
اک میرا اور ایک تمھارا نام 
بدل بدل کر لوگ  سکوں و انتشار کا
ذکر کرتے ہیں
کبھی مجھ سے پوچھ کر 
کبھی مجھ سے روٹھ کر
چلے جانے والوں کا پتہ
پوچھتا ہے وقت
کہیں اندھیرے کونے میں چھپی
وہ کسک آج بھی بھٹک کر
میرے پاس آجاتی ہے


Monday, September 19, 2016

ذکر

آؤ بیٹھو کچھ خرابوں کا ذکر کرتے ہیں

کچھ اپنےکچھ زمانےکےستم کا ذکر کرتےہیں

جس سے مانگیں تھیں انگنت دعائیں میں نے

کچھ اپنے خدا سے شکایت کا ذکر کرتے ہیں

ایک ایک لمہہ جو گزارہ ہے تمھارے بغیر اے ہمدم

چلوکچھ اپنی کچھ تمھاری جفاؤں کا ذکر کرتے ہیں

اپنی خودی سے لڑ کر جو بیٹھا ہوں میں آج

تمھارے سچ کےانگنت  رنگوں کا ذکر کرتے ہیں

تم یہاں سےجانےکی بات اب ہرگز نہ کرو مجھ سے

اب اہلِ حرم تمھاری وفاؤں کا دن رات ذکر کرتے ہیں

میں خود سے ہار کر پھر اک بار جا رہا ہوں تجھ سے دور

خاموش ہیں شہر والے پھر بھی اک شخص کا ذکر کرتے ہیں

اب میں بھی خود سے کہتے کہتے تھک گیا ہوں گویا

آداب مہبت یہی ہےاب کہ تنہائی میں تیرا ذکر کرتے ہیں

Tuesday, September 13, 2016

اک خاموش سا رشتہ

کہہ دو نہ! کہ ایسا نہیں ہے 
ہاں میں تمھیں
تم مجھے
شدد سے یاد کرتے ہیں
اکثر میں
اپنی تنہائیوں میں
تم سے کہہ دیتا ہوں
وہ سب کچھ جو
میری سوچ میں مدفون ہے کب سے
زندگی کی رونکیں
روز کی الجھنیں
مجھے پھر تم سے چھین لیتی ہیں
پھر اس خودی کی تلاش میں
خود سے الجھ کر
تمھیں بھول گر
میں خود کو کہتے سنتا ہوں
شاید اب یہی مناسب ہے
کہ کہہ دو اپنے سے
کہ اب کہنے کو
شکؤں کے سوا
نہ میرے پاس
نہ تیرے پاس
کچھ بھی نہیں
اک خاموش سا رشتہ ہے
جسے میں اور تم 
کتنی مہبت سے نبھا رہے ہیں
اکیلے، اکیلے
تنہا تنہا

Tuesday, September 6, 2016

خود کلامی ۲

ایک دردِ مسلسل ہے ایک امیدِ جاں ہے ایک منتظرِ نظر ہے
میں زماں و مکاں کی قید سے آزاد چلا جا رہا ہوں مستقل

مجھ سے کہنے کو اس کے پاس اک داستان تھی
کچھ میرادیوانہ پن رہاکچھ اُسے بھی ہچکچاہٹ رہی

سجدوں میں کھو کر جسے دل سے بھلا رہا ہوں میں
اپنےہاتھوں کی لکیروں میں ڈھونڈتا ہوں میں اُسے 
اکثر

جن اشاروں پہ جو یہ دل بہک جایا کرتا تھا میرا اکثر
اب وہی مچلنےکےبہانے ڈھونڈتا ہوں اپنی تنہائ میں

جس کے وجود کو سوچ کے سانچوں میں ڈھال رکھا ہے میں نے
وہ میری ذات کے کردار و گفتار کو تراش رہا ہے آج بھی ذرا ذرا

مجھ سے میری جفاؤں  کا حساب مانگ لو آج تم بھی اک بار
حجر کی راتوں، دعاؤں کے سلسلوں، امیدوں کے 
قافلوں کے لٹنے کے بعد

ذکررہا ہےتیرااپنےآپ سے کبھی کبھی تنہائ میں
میں منتظر ہوں ابتک اپنی خاموشی کے ٹوٹنے کا

مجھے چھین لو میری سوچ سے اک بار پھر تم
مجھےآج بھی تنہائ اچھی لگتی ہے کبھی کبھی




Monday, August 29, 2016

اگست ۲۹ کی سرگوشی

اُس رات کی صبح نہ ہو سکی آج تک
وہ تمام شب اُس زماں میں روک رکھی ہے
جہاں اب سوچ کا گزر ممکن نہیں
جس کے گرد وقت پہرہ لگاۓ بیٹھا ہے
جس کی کھڑکی پہ کھڑے وہ لمہے آج بھی
مجھے الوداع کہنے کو تیار نہیں
بس یوں ہی مؤں موڑ کر
دامن کو چھڑا لینے سے پہلے
وقت اپنے قدموں کے نشاں
نقش کر گیا ہے
دلِ نامراد کی پاسبانی کیلۓ
نا معلوم سا ایک دلاسہ
اک ادھوری سی کسک 
وہ امید کا خاموشی سے کہنا روٹھ کر
کہاں تھے اب تک؟
کس کے ساتھ تھے؟
کس کے پاس تھے؟
وہ بے جا کی شکایتیں
وہ خوامخواہ
بات بے بات اداس رہنا
وہ منانے کے دس بہانے 
ناراض رہنے کی وہی دو باتیں 
تمھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے یاد ہے 
ذرا ذرا




Sunday, August 28, 2016

مکیں

تم نہ سمجھوگےاس دل کا ویرانہ
اس بستی کےمکیں بس تم ہی تو ہو

Saturday, August 20, 2016

تم سے

تم سے کہنے کو تو ناراض ہوں میں
پر تمھارا ذکر اکثرخود سے رہتا ہے 

آوارگی

تجھ سے بھاگ کر میں جاتا بھی تو کہاں؟
میرےآوارگی کے سب ٹھکانوں سے واقف ہےتو

ستم گر سے آج کہہ دو

ستمگر سے آج کہہ دو
وفاؤں کا ذکر چل نکلا ہے
اس معصوم سے کہہ دینا
جس پہ ظلم کا حساب اب بھی باقی ہے
اِن وادیوں میں پھیلا دو یہ پیغام
ظالم کے دن گنے جا چکے ہیں
اب تو صرف حدِنظر تک
مظلوموں کے ہاتھ نظر آتے ہیں
گریبان تیار رکھو
گریبان تیار رکھو
آج ہم ظلم کو مٹانے نکلے ہیں
سر پہ کفن باندھے
ہم کفن نکلے ہیں
قلم ہمارا ہتھیار ہے
سچ ہماری ڈھال 
کہو کہ ظالم کو آج شکست ہوگی
کہو کہ آج پھر حق ہی کی فتح ہوگی
کل صبح کا سورج جب نکلے گا
ایک ہمارا لشکر ہوگا
حدِنظر تک بس خلقِ خدا ہوگی
اب راج کریں گے سب ظلم سہنے والے
اب بولے گا سننے والا
اب راج ہمارا ہوگا
اس ستمگر سے کہہ دو
کل کا سورج نکلے گا
کل سے راج ہمارا ہوگا

Thursday, August 4, 2016

ہرجائی

تم سے بیوفائ کا میں سوچ لوں یہ ممکن نہیں
ہر حسن میں فقط تم ہی تم نظر آتے ہو مجھے 

برسوں کے بعد

وہ شخص ملا کچھ اس طرح برسوں کے بعد 
جیسےبچھڑنا اس کی ادا کبھی رہی ہی نہ ہو
***
اس کی باتیں آج بھی کمال ہیں 
پیار بھی ہےاک سرگوشی کی طرح 
***
بیٹھے بیٹھے جو میں مسکراتا ہوں 
اس کی وجہ بھی  شاید تم ہی ہو
***
میں خود سے ہمکلام رہتا ہوں اکثر
تم سے گفتگو کا یہ سلسلہ جاری ہے
***
تمھارے میرے درمیان کیا پردہ داری
تمھارا راز میں ہوں میرا خواب تم ہو
***
تم سے کہنے کو تو بہت سی باتیں ہیں مگر
نہ حوصلہ میرے پاس نہ برداشت تیرے پاس
***
سچ بات تو یہی ہے کہ تم یاد آتے ہو اکثر
اب میں جھٹلاؤں اسے یہ بھی ضروری ہے
***
مجھے کیسے نہ یاد آؤ گے تم
کیسے مجھے تم بھول پاؤ گے
ایک سوچ ہے مسلسل سی بس
جس میں جیۓ جا رہے ہیں ہم
***
نہ مجھےتم سے مہبت ہے نہ تمھیں مجھ سے
کتنا ایک سا سچ اور جھوٹ ہے میرا تمھارا 
 

Thursday, July 28, 2016

آج

آج

میں بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا
الفاظ سوچ کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں
میں کیسے بیان کروں وہ وحشت
جو مجھے پسند ہے
اس قدر کہ میں اس کا ذکر 
اب کسی سے نہیں کرتا
اپنی حوص کے اس شوق میں
میں اک الگ جہاں میں رہتا ہوں
جہاں کسی کا گزر
ممکن نہیں
سوچ اور گفتار کے درمیاں میں 
اس جنگ میں مسلسل اپنا احاطہ کر رہا ہوں
پھر بار بار یہ شوقِ تنہائی
مجھے اپنی آخوش میں لیکر 
کہتی ہے
بھول جا اُسے

Wednesday, July 27, 2016

بیوفا سے

تم سے اب کیا شکایت
تم سےاب کس بات کا شکوہ
اک ادھوری سی بات تھی
اک انا کا سوال تھا
جس کی جنگ میں 
تم بھی گرفتار تھے
میں بھی سرکش تھا
نہ تم ہارے اپنی بازی
نہ میں توڑ پایا اپنا غرور
اب اِس بات کو کہنے کی ضرورت
منافقت کے بہانیں ہیں سب
ملالِ جاں کوئی نہیں
نظرِ منتظر کچھ بھی نہیں
حقیقتِ وقت یہی ہے اب
صحبتِ دل میں اب کچھ بھی نہیں

ملاقعات

خشک موسم کی ہوا
اور ہمارے درمیان وہ خاموشی
تمھارے ہاتھوں کی نرمی
اور میرا روکھا مزاج
کہنے کو تو فقط
شام کی ایک ملاقعات تھی
پر اب بھی مجھے اکثر
جھنجھوڑ دیتی ہے
وہ ان کہی باتیں
اور اداس سی ٹوٹتی وہ اک مسکراہٹ
اب بھی نقش ہیں وہ سب 
میرے ارد گرد
ہر طرف ہر جگہ

Tuesday, July 26, 2016

خوف

یہ کیسا انجانہ خوف ہے
جو مجھے خود سے
دور لیئے جارہا ہے
میں رفتہ رفتہ
اپنے خواب لٹا رہا ہوں
ایک دھندلی سی حقیقت کیلئے
میں اپنی تمناؤں
کو سنبھال لوں ذرا
کہیں وقت کا رہزن
جکڑ نہ لے
مجھے میری خواہشات میں
سوچ کےچوراہے پہ کھڑا
اپنی خودی کی لاج بچانے کو میں
کتنی بار سرِ بازار بِک چکا ہوں 
اب تو کوئی خریدار بھی نہیں
سوچ کے اس حرم میں
سنگتراش سا میں
اپنے خدا بناتا، بگاڑتا ہوں
کچھ کے نام رکھ کر
کچھ کو بے نام چھوڑ کر
سجا رکھا ہے ان کو میں نے
اپنے اعتبار کیلۓ
جن میں سے کچھ 
اب بھی اثر رکھتے ہیں مجھ پر
ان کو کھونے سے
مجھ سے دور ہونے سے
میں گھبرا رہا ہوں
اس انجانے خوف میں
میں خود سے دور ہوا جارہا ہوں




Monday, July 25, 2016

خراب خواب

چلو مسکرائیں کہ دن آرہے ہیں تم سے ملاقعات کے
تمناؤں کا نشیمن اجڑے اب کچھ وقت ہو چکا ہے 

کوئی ایک مسکرانے کی وجہ ہو تو بتلاؤں تمھیں 
خرابوں میں بسےخوابوں کو کب تک سنبھالوں گا میں 

میرےدل کے خریدار شام سے بیٹھے ہیں
کوئی دام دےبہترتو پھر بِک جاؤں آج میں 

تم  سے غم کا رشتہ برسوں پرانا ہے
دل کوغم کی تلاش تھی سو تم مل گئے

میرے راستے میں کئی کہکشاں ہیں منتظر
میں ایک ایک کر کے ان پہ سفر کر رہا ہوں

ہرگز نہیں

تم سے ناراض میں ہرگز نہیں میری جاں
تم سااک شخص تھاجو پھر دل دُکھا گیا

دریچے

چند دن اور اسی طرح گزر جائیں گےاُس کے بغیر
جس کے ساتھ وقت تھم کر مجھے تھام لیتا تھا 

میں مسکراتی صبح سےمخاطب ہو کرکہتا ہوں
سہانی شام اور دلکش چاندنی میری منتظر ہے

مجھے ہرگز نہ روکو میری آرزؤں کےفریب سے
میں توایک بھٹکا مسافر ہوں، اور کیا بھٹکوں گا

مجھ میں اتر کر کبھی  تلاش کرو اپنا نام  بھی
ایک نگرہےتم سے وابستہ جس کامکیں کوئ اور ہے

تمھاری یاد کے کتنے بت خانے سجا رکھے ہیں میں نے
کچھ اب بھی آباد ہیں کچھ ڈھا دئے وقت نے خوامخواہ

تم سے مسلسل جنوں کا رشتہ قائم ہے
میں آواز دیتا ہوں تم میرے پاس چلےآنا 

اب کے مہبت کا برابر حساب ہم دونوں رکھیں گے
کون ہارا کون جیتا اب یہ زمانے کو نہیں کہنے دینا
****

شام - 7 مئی ۱۹۸۹

مجھ میں بھر دو رنگ
اُن لمہوں کا پھر سے
جن میں تنہائ نہ تھی
کوئ اداسی نہ تھی
سمؤ دو اُن تمام لمہوں کو
اُس ایک مسکراہٹ میں
جس پہ فدا تمام رعنائیاں تھیں
دیکھو ذرا اُس یاد کی ایک جھلک
جب تمھارے ہاتھوں میں
میں اپنا نام لکھ رہا ہوں
غم سے نا آشنا، اداسی سے دور
ڈوپتے سورج کی کرنوں میں جھلکتی شام
تمھاری زلفوں کی مہکتی خوشبو
جو ہرغم
کو اپنی آخوش میں لپیٹ لیتی
جب خواب ایک ایک کر کے 
آسمان پہ اجاگر ہوتے
ان لمہوں کو ایک ایک کر کے
پرو دو اک لڑی میں
جو میرے کَل کو جوڑ دے
میرےآج کے ساتھ
خوابوں کے اس ویرانے میں
وقت کے اس دشت میں
میں ڈھونڈ رہا ہوں
وہ پَل
جن سے منسلک
میں آج بھی
اپنی ذات میں گم ہوں 

Sunday, July 24, 2016

کہانی

کہنے کو تو ذرا
پر سہنے میں اک مشکل ہے
تکلیف کے یہ لمہے
تمھاری ہر بات کی
یاد دلاتے ہیں
کچھ بات میری ہے
کچھ بات تمھاری
بس چند لفظوں میں بسی
ناراض سی داستاں
تمھاری ہے
خاموش سی کہانی
میری ہے

Thursday, July 21, 2016

رخست

وقتِ رخست مجھ سے لپٹ کے رویا بہت تھا وہ
وہ شخص مجھے تھام کر سنبھلنے کا کہہ گیا
****
آنکھوں میں اس کے ملال ہر گز نہ تھا
چند آنسو تھمے تھے جو جھلکتےنہ تھے
****
میں خاموشی سےمسلسل اسے دیکھتا رہا ہوں
وہ مجھ سے مخاطب رہا پر ہمکلام نہ ہوا کبھی  
****
اس سے کہنے کو میرے پاس بہت کچھ آج بھی ہے
میں کہتا تو وہ سنتا، ہنستااور پھر روٹھ بھی جاتا 
****
شکایتوں کا ایک انبار میرے پاس بھی ہے
کچھ کہوں تو کُھو دوں اپنا بھرم پھر سے
****
جب  سے تیرے میرے راستے الگ ہوئے ہیں
نہ تجھے تیرا پتہ ہے نہ مجھے اپنی خبر ہے
****
نا معلوم منزلوں کی جانب اس سفر میں آج پھر
اُس سہارے کی تلاش ہےاور چندآنسوؤں کا حساب 
****
تم سے وابستہ ہر شام لوٹ آتی ہے اکثر
میں اکثر اس ہجوم میں تنہا نہیں رہتا پھر
****
تم سے اب کیا پردہ داری
دنیا سے وہی جھگڑا چل رہا ہے
اک وہی سوچ ہماری ہے 
اک وہی شکست جاری ہے
****
وہ میرے خواب کا حصہ تو کب سے تھا ہی
اب میری تدبیر میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے
****
مرے جنوں کی کہانی ہوئ پرانی
سنا ہےاب دیوانوں کا راج چلتا ہے
****
تیرے کہنے کو میں بھول چکا سارے غم
اب یہ عَلم میں نہیں کوئ اور اٹھائے گا
****



Wednesday, July 20, 2016

رشتہِ مہبت

یہ چاند اور شبنم
سہر اور دھنک 
تم سے رغبت کے یہ سلسلے
یہ ٹھرا ہوا وقت
یہ خاموش سی فضا
تم سے گفتگو کے چند بہانے ہی تو ہیں
یہ ادھوری باتیں
یہ بےغرض ملاقعاتیں
انجانے خوابوں کے تسلسل میں
چُھپی خوشبو کی اک بات
رنگوں سے عیاں بے رنگ سے چند خیال
مہبت کے سلسلوں میں پھنسے
رشتوں کے بھنور سے پرے
کچھ دل کے پاس پاس
کچھ ذہن کے فتور سے دور دور
میرے تمہارے درمیان
جذبوں کےمدوجزر میں چھپا
سوال کرتا اک پہر
جسےنام نہ دو کسی رشتے کا
لاوارث سا یہ ایک تعلق
جس میں پریشاں نہ تم ہو نہ میں
رنجش کی کچھ ہی گنجائش رکھے
چند غم تمھارے 
کچھ ٹوٹے خواب میرے
تھوڑے تم بانٹھ لو
کچھ میں بکھیر دیتاہوں
وقت سے کچھ لمہے
میں چرا لیتا ہوں
کچھ تم سمیٹ لینا

Song of Sorrows

One by one,
Shedding tears in despair,
My smile getting stiff,
With no expressions of now and then,
I become rigged to what I see and hear,
Looking for someone to be blamed,
In and outside of my thoughts,
I close my eyes,
Shutting out my inspirations, 
Humming a song of sorrows,
Hanging on to hope, 
I wishper a story of tomorrow 
To myself, 
Reassuring a believe in,
What I can't see or hear,
A voice buried deep inside me,
Shouts at me,
Stop deceiving!
You are not leaving, 
You are not leaving, 
I open my eyes, 
Silencing the voices,
I see teardrops on the pillow,
I see raindrops on the window
Smiling on the similarity, 
Humming the song of sorrows,
I am hanging on.....



Thursday, July 14, 2016

الجھن

اس دردِمسلس کی قسم
دل دھڑکتا ہے
اور کہتا ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس وقتِ بیوفا کی قسم
ہر دم
ہر پل
یہ یہی کہتا ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس صبحِ بے نور کی قسم
جو اماوس کی رات میں
ڈھل جاۓ گی
خود گواہی دے گی
تم میرے ہو
تم میرے ہو
اس وحشتِ دشت کی قسم
مجھ سے
میرا وجود
پوچھتا ہے
تمھیں یقین بھی ہے
کہ نہیں
یا صرف دنیا کو
دکھانے کو
زمانے کو بتانے کو
کہنے کو ہے
تم میرے ہو
تم میرے ہو


Tuesday, July 12, 2016

خود غرض

کتنا دلفریب ہےتو اور کتنا خودغرض ہوں میں
مجھے جلا رہا ہے تو اور جلا جا رہا ہوں میں


منزل

اِن راستوں کو بنتے،بگڑتے
پھر سنورتے دیکھا ہے
جن سے تم آؤ گے ٹھہرو گے
اور پھر لوٹ جاؤ گے
جن رعنائیوں کو
میں نےاپنی سوچ میں چھپا رکھا ہے
اُس سوچ کو جھٹلانے
اور پھر لوٹ جانے کو آؤ گے تو سہی
میں خاموشی سےایک طرف دیکھتا ہوں
مگر
نظر لوٹ جاتی ہے پھر اُس جانب 
بار بار
جہاں سے تمہاری یاس کھینچ لاتی ہے
اِس طرف
جہاں بیٹھا
میں اک نام لکھ رہا ہوں
بار بار
کتنا بھلاؤ گے تم مجھے
اور کتنا یاد نہ آؤں گا میں تمھیں
اس اناء کی آنکھ مچولی میں
نہ تم مجھے مکمل بھول پاؤ گے
نہ میں تمھیں مسلسل یاد رکھ پاؤں گا
بس چند لفظوں سے شروع ہوکر
چند لفظوں پہ ختم ہوگی
یہ ادھوری سی اک  کہانی 
مٹے مٹے سے نقوش ہونگے جس میں
اک نام تمہارا لکھا ہوگا
اک نام مرا لکھا ہوگا
اک اک کرکے ان ستاروں کو بھی تھام لو آج
جو تمھیں بھی بِھلاتے ہیں
اور مجھے بھی امید دلاتے ہیں
اب تو بس
تمہاری خوشبو
مجھے کھینچ لےجاتی ہےاُس جانب
اُن راستوں پر، اُن تمناؤں کے سراب میں
میں مسلسل بھٹکتا جاتا ہوں
ان منزلوں کی جانب
جن کے راستے میں کوئ کہکشاں نہیں
کوئ سہارا، کوئ ٹھکانہ نہیں
بس اک راستہ ہے نا پختہ سا
جو نامعلوم ویرانے کی جانب
اک سفرِ مسلسل ہے
جس کی کوئ منزل نہیں
جس پہ کوئ مسافر نیہں
ہمسفر نہیں
اورکوئ ہمدم بھی نہیں 


Monday, July 11, 2016

I fall in and out of love with you again and again

With each passing day,
When I miss you,
When I need you,
When you look at me,
And ask me to close my eyes,
And whisper in my ears,
Softness of your voice 
Touches my soul, and,
I fall in love with you,
And when I go away
You don't care how I miss you,
How I suffer from the lows in my life,
You remain indifferent to my sufferings,
You don't call my name, 
You leave my dreams alone,
And I miss you again and again,
I fall out of love with you,
And when I see you,
The vulnerable side of yours,
That you hide from everyone,
In the middle of the night,
When you call my name, 
Curled up against me,
You tell me,
Not to go again,
How your heart can not afford to miss me again,
You say that so seldom,
You hide what so often,
And I fall in love with you again,
How we repeat this,
Every time, 
We are together or apart,
How we cheat and lie,
How we proudly say to each other,
You don't matter,
I can take care of myself,
With or without you,
I fall in and out of love with you, 
Again and again

Friday, July 1, 2016

وقت سے

اے وقت آج تُجھ سے مخاطب ہوں
تو نے پھر آج
مجھ سے دغا کا ارادہ کر رکھا ہے
پھر تیرے نام پہ آج بِک جاؤں گا میں
پھر تیرے پہلو میں بسے شب و روز
کھو کر
پھر آرزؤں کے سراب میں گِھر جاؤں گا میں
اے وقت، مجھے برباد نا کر
تو نے مجھ سے وفا کی قسم کھائ تھی 
مجھے معلوم نہ تھا کہ تو 
تو اک بنجارا ہے
تیرا ٹھکانہ کوئ نہیں
تجھے روکنے والا کوئ نہیں
اے وقت مجھے چھوڑ کر مت جا
میں نے تجھے عمر بھر اپنا رفیق رکھا ہے
تجھے واسطہ ہے اُن لمہوں کا
جو تیرے ساتھ میں نے گزارے
ہر وہ دن
اور شب
وہ اک، اک لمہہ 
جس میں تری چاھ میں
ترے پیار میں
اپنوں کو چھوڑکر 
سب سے مؤں موڑ کر
کتنے دل توڑکر
کتنے شہر چھوڑ کر
سب کو بھلا کر
میں تیرے پیچھے چل پڑا تھا
اے وقت
میں تجھ سے وفا مانگتا ہوں 
چند گھڑیوں کا تھوڑا ساتھ اور مانگتا ہوں
اے وقت میں جانتا ہوں
تیرے اور بھی چاہنے والے ہیں
وہ بھی آج تجھ پر
اپنا سب کچھ لٹانےوالےہیں
میں تو تجھ سے فقط
تھوڑی سی مہلت مانگتا ہوں
اک ہوس ہے ماضی کی
جسے میں نے چھپا رکھا ہے
اے وقت مت جا
کہ میں اک بار پھر
اپنے خوابوں کا احاطہ کر لوں
میں نے سب کچھ کھو دیا ہے
تیری مہبت میں
اپنی دیوانگی میں
میں آج مجرم ہوں
اپنوں کا
جن سے چھپ کر
میں نے ضرف تیری طلب کی ہے
اے وقت مجھے اکیلا نہ چھوڑ
کہ میں آج  
تنہا ہوں
اپنے ماضی کے اس مزار کا
اس ویران قبرستان کا 
گورکن و مجاور میں ہوں 
اس ماتم کدے کا مہتمم بھی میں ہوں
یہاں کا وقت پرست پہرا گر بھی میں ہی ہوں
اے وقت کچھ دیر کو اور ٹھر جا
اے وقت لوٹ آ


Thursday, June 30, 2016

مجھ میں خدا رہتا ہے!

ایک کمزور مایوس سا
اپنے آپ سے ناراض
سب سے الگ تھلگ
خاموش، ڈرا سہما سا
منتظر
بیفکر اور لا ابالی سا
اناء پرست
ایک خدا
میرے اندر بھی رہتا ہے


تم مجھے غلط سمجھتے ہو

میں وہ نہیں
جو نظر آتا ہوں
میں وہ بھی نہیں جو سنائی دیتا ہوں
نہ میں اثر انگیز ہوں
نہ سہرانگیز
نہ میں پتھر ہوں
نہ ہی راکھ کا گوئی ڈھیر
نہیں، نہیں میں تو زندہ لاش بھی نہیں 
میں ضرف ایک احساس ہوں
جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے
میں تو موسم ہوں
میں بہار، اور گزاں ہوں
میں پت جھڑ ہوں
میں بارش ہوں
میں سرد ہوا ہوں
میں گرم دھوپ اور چھاؤں ہوں
میں تمہارے ارد گرد
وہ سوچ ہوں جو تنھا ہے
میں خوشی ہوں 
میں دکھ ہوں
میں دعا ہوں
میں التجا ہوں
میں نفرت اور مہبت ہوں
میں سرگوشی میں چھپی
اک امید ہوں
میں خاموشی ہوں
میں تم ہوں


Confronted!

Can I be trusted?
I am confronted with myself,
Deep down at the center of 
The emotional emptiness 
I can't feel
Or love
I can't see
Or appreciate
What is, done to me or for me
I am committed to none but myself
Only to be rescued
Before I silence
The remaining parts of me
Who love and care about nothing
Laughing in a corner 
I see myself crying in the other
Laughing at both of them on the third
I try to be indifferent in the fourth corner
Only to observe them all from the above
I see myself transforming from one to another 
Without any guilt or pleasure
I confront myself for reality
Only to be told
Who am I now?
Still the same!
All of us, say to all of them 
And still
Not to be trusted



Wednesday, June 29, 2016

کہنے کو تو ہےا

ایک رکا ہوا لمحہ 
میری سوچ میں تیرے نام کیساتھ 
اک شام کی طرح 
کہیں نقش تو کہیں مِٹا مِٹا سا
کہنے کو تو ہے
کہیں چھپا
تو کہیں بے حجاب 
بے اختیار 
سوچ کے زاویئوں سے دور
اور دل کے پاس پاس
کہنے کو تو ہے
تیرے خیال سے جُڑی
دل کی خلش
کہیں چھپی
کہیں خاموش سی اک سرگوشی
مدھم مدھم سی
شور و نظر سے دور
کہنے کو تو ہے
شام کی بارش
اور بوندوں کی رم جِھم
ایک مسکراتی یاد
اور مِٹا مِٹا سا وہ تبسم 
جھلکتی آنکھوں سے بھٹکا
وہ ایک آنسو
کہنے کو تو ہے
موسم کی پہلی بارش
اور بادلوں سے جھانکتا یہ چاند
رات کے پچھلے پہر
یاد میری دلاۓ یا نہ دلاۓ
مشکل میں جان تیری
اور میری
کہنے کو تو ہے
مجھ سے میری جفاؤں کا حساب مانگو گے؟
میں تو الگ تھلگ
زمانے سے دور
تمہاری ہی یاد میں رہتا ہوں
کوئ نہیں ہے اب تیرے میرے درمیان
بس ایک وقت کی جدائ ہے، سو،
کہنے کو تو ہے
مِرا وہ ٹوٹتا گھمنڈ
اور چھوٹی سی ایک صد، تمھاری 
نہ میری وہ سوچ رہی
نہ اناء کی وہ مجبوریاں تمہاری
پر کچھ تیرے پاس 
کچھ میرے پاس
ایک شکوہ،ایک گلہ
کہنے کو تو ہے
میری آنکھوں میں بسی خاموشی
اور تمھارے دل کا یہ ویرانہ پن
گو ان کا شاید تعلق کچھ نہ ہو، پر
کچھ تو دکھانے کو
زمانے کو بتانے کو
کہنے کو تو ہے
نظر میں تیری ملال
اور میرا یہ دیوانہ پن
سب نے یہ سمجھ رکھا ہے
میرا تو کوئ حال ہی نہیں 
بس تری خاموشی باعثِ سبب ہے
ادھوری اس ویرانی کا
کچھ ہو، یا نہ ہو
کہنے کو تو ہے  


Tuesday, June 28, 2016

I saw....

Walking on the aisles of my thoughts,
I saw an oasis of sadness,
Collected over a short passage of time,
Delusions lying in emotions,
I saw ambition crumbling into tears,
What I knew in the past,
Was no more there,
I saw a struggling soul,
Trying to keep sanity and confusion together,
Making sense of all the desires,
While putting the shine on fate,
I saw a fading picture of body and mind,
Losing control,
Making it, the worst of time 
And the best of time,
Ghosts of the past and gods of the tomorrow,
Singing mute songs of sorrow,
Struggling to keep it together,
I saw words losing their meanings,
Conversing with thyself,
Confusion creeps into reasoning,
The struggle to make it right again,
The desire to own the world again,
The cry to be relevant again,
I saw life becoming lost again,
With reasons to smile,
In the suffocation of thoughts,
Limitations of time were reflected in each slipping moment,
I saw a crumbling spirit vanishing into time.


Saturday, June 25, 2016

An unfinished dream

Yet again,
I find myself,
In the middles of an unfinished dream,
Where, I am chasing the future,
While the present is slipping away from my hands,
Yet again,
I find myself,
Looking for thyself, from my own eyes,
Missing the surroundings completely,
Passion, desire, ambition are calling me,
While love and virtue calms me down,
In the conflict of now and then,
I am splitting into known and the unknown,
Yet again,
I am struggling 
with myself,
I am confining myself to the limitations of my thoughts,
While my desire is disappearing into the unknown,
Yet again,
I am lost,
To be found, and lost again,
While, I remain loyal to my desire,
I pursue happiness of a new kind,
Creating a bridge between now and then,
I am asked to chose between here and there, 
Yet again,
Looking into the future,
The old smiles at the new,
Calling me an obsessive compulsive,
Flirting with the new,
I kindle my emotions for a mute passion, with a blind faith,
Yet again,
With a closed mind,
I wake up,
From my unfinished dream,
With a desire to sleep and dream again,
Of a different time, 
Of a different place,
With happiness around me,
Where compassion surrounds me,
Yet again,
I dream again!



Saturday, June 18, 2016

میں دستک دے رہا ہوں

میں دستک دے رہا ہوں
اپنے اندر کے وجود سے
تمھاری زندگی میں آنے کی طلب میں 
میں دستک دے رہا ہوں
اپنے اکیلے پن سے گھبرا کر
اپنی تنھائی سے موُں موڑ کر
تمھارے آستانے پہ
میں دستک دے رہا ہوں
اِس موڑ پہ، اس وقت میں
گمشدہ سا میں
اپنی ہی تلاش میں
میں دستک دے رہا ہوں
گبھرا کے
سب سے آنکھ بچا کے
دھک دھک کرتے
دل کی دھڑکن سے
میں دستک دے رہا ہوں
یہ خاموشیاں اور تمھارےنام کی
سرگوشیاں
اک، اک لمہے کو 
گنتے، گنتے
ڈرتے، ڈرتے
میں دستک دے رہا ہوں
اپنے خوابوں کے ٹوٹنے سے پہلے
اس نیند سے جاگنے سے پہلے
اس صبح سے پہلے
تمھارے در پہ
میں دستک دے رہا ہوں
کون ہو تم اور کون ہوں میں
اس زمانے میں 
اس ویرانے میں
نئ اداسیوں، نئ تنہائیوں
کے گوش گر
نہ تم رہے ہو، نہ میں
بس اک امیدِ چہاء لئے
میں دستک دے رہا ہوں
خالی ہاتھ، بے نم آنکھ
نا مراد دل، ساکت ہونٹ
اور اک خالی دامن کے ساتھ
خرابِ جاں کے لیئے 
ایک دفعہ پھر
میں دستک دے رہا ہوں



Tuesday, June 14, 2016

People Say...

You are born
You are ok
You you are the youngest
You are cute
You are loved
You wait
You sleep
You grow up
You dream 
You keep quite
You are a loner
You do not trust easily 
You lie 
You cheat
You have an attitude
You are crazy
You are romantic
You are an idiot
You are in love
You are selfish 
You are unlovable
You are a psycho
You are wise
You are cunning
You are mine
You are not here
You are unfaithful
You are a bastard 
You are so cool
You are a compulsive flirt 
You are an ass hole
You are deceiving 
You are evasive 
You are shy
You are not you
You are son of a bitch
You are not mine
You are a bad person
You are not to be trusted
You are a good friend
You are a bad friend
You do not care
You are innocent 
You are self centered 
You are insensitive 
You are heartless
You are impracticle 
You do not think
You can't read
You are sensitive 
You have no ambition
You will be nothing 
You are nobody 
You are a thief
You are done 
You are a miracle
You are the Saviour 
You are God sent 
You are selfless
Your are mysterious
You are challenged 
You are creppy 
You are a visionary 
You are bipolar 
You are sick
You are not worth it
You are not right for me
You are a tyrant
You are so uncool 
You are a liability
You are unwelcome
You are gone 
You are alone 
You are depressed 
You are a fool
You are a dreamer
You are struggling 
You are working
You are happy
You are lucky
You are married 
You are together 
You are charismatic
You are doing fine 
You are not doing fine 
You are not well
You are hired
You have changed
You are fired
You are happy
You are wise
You are welcome
You are ruthless
You are shameless
You are down
You are schizophreniac 
You are waiting
You are at the doctor
You are not with anyone
You are quite 
You are crying
You are dying 
You have friends
You have family
You are not alone
You are misunderstood
You are kind
You are in our prayers
You have accomplished so much
You are dead
You are no more
You were here




Sunday, June 12, 2016

میں آج بہت رویا

11 June, 2016 - Santa Ana, California, USA

آج میں اپنی اُس ماں سے مل کر بہت رویا
جس کے سائے نے مجھے دھوپ میں چلنا سکھایا 
جس نے ہر اداس موڑ پہ ہنسنا سکھایا
جس نے ہر ظلم سے لڑنا سکھایا
جس نے ہر ہر غم کو مسکراتے ہوئے سہنا سکھایا
کل تک جو مجھے بولنا سکھاتی تھی
آج مجھے پہچاننے کی مسلسل کوشش میں
اپنے کل اور آج کی دھوپ چھاؤں میں
کھئیں سہمی سہمی
تو کھیں کھوئی کھوئی سی نظر آتی ہے
اس کی ڈری سہمی سی آنکھیں
میرے وجود سے کہتی ہیں
مجھے کھینچ لو میرے ماضی سے
جہاں میں قید ہوں، اس تنہائی میں
سب سے الگ
سب سے جدا
اپنوں کے پاس
جو آج نا مجھ سے ملنے آتے ہیں
نہ مجھ سے بات کر پاتے ہیں
اک حصار ہے یادوں کا
اک سراب ہے اجالوں کا
میں اپنی اُس ماں سے مل کر بہت رویا
آج اِس کے دکھوں کو کیسے بانٹوں میں
جس کے دامن سے مجھے صرف مہبت ہی ملی ہے
میں تو جانتا بھی نہیں، کہ کیسے پکاروں گااُسے 
جو ماضی کے گرداب میں اپنی ہی تلاش میں گم ہے
اس کے غموں کا حساب کس نے رکھا ہے؟
جس کےہاتھوں نے صرف ماں کی ممتا ہی بانٹی ہے
ہرلمہہ مجھ سے وہ دور ہوۓ جارہی ہے
اس کی ہر سانس جدائ کی صدا سناتی ہے
اک اک پل
اک اک بوند میری آنکھوں میں
ابھرتی، سِمٹتی، سسکتی
خاموش بے بسی کا مذاق اڑاتی ہے
میں کیسے اسے کہوں
ماں، مجھے آج بھی تیری ضرورت ہے
اپنی آخوش میں چھُپالے مجھ کو، کہ
میں آج بھی خوابوں کے ٹوٹنے سے ڈرتا ہوں
میں آج بھی اکیلے پن سے ڈرتا ہوں
آج بھی لوگ مرا مذاق اڑاتے ہیں
آج بھی لوگ مجھے ستاتے ہیں
مجھے آج بھی تیرے دوپٹّے میں چھُپنا ہے
مجھے آج بھی تیری لوری سننی ہے
مجھےکل بھی تیری دعا کی ضرورت تھی
مجھے آج بھی تیرے سائے کی ضرورت ہے
تو آج بھی خاموش آنکھوں سے دعا دیتی ہے
تو آج بھی مسکرا کر اپنے غم چھُپا لیتی ہے
اس کے دامن پہ سر رکھ کر
آج میں اپنی اُس ماں سے مل کر بہت رویا






Wednesday, June 8, 2016

خود کلامی

آخر کب تک بھاگو گے
آخر کب تک نہ مانوگے
اک دن تھک جائوگے
اور بہہ جاؤ گے
تم بھی ان رعئنائیوں میں
جہاں ذکر صرف
اُس ایک ذات کا ہے
جس کیےآگے
سب ہی 
اپنی مراد پاتے ہیں
اپنا غرور
اپنا گھمنڈ پاتے ہیں
کیسے چھوڑ سکو گے
کیسے بھول سکو گے
وہ تو تمہارے ہی اندر رہتا ہے
جو شیطان بھی ہے 
اور رحمان بھی ہے

سفرنامہ

سکونِ ذہن کی تلاش میں
آج پھر نکلا ہوں اک سفر پرمیں
تلاش ہے نہ کسی خوشی کی
نہ ہی جستجو کسی ہمقدم کی
اپنے اندر کےخدا کو ڈہونڈنے نکلا ہوں
رشتوں سے دور
تمناؤں سے الگ
تنہائیوں کے درمیاں
بس اپنی ذات سے ہمکلام ہوں
اے خدا مرے وجود کو ایسا کردے
کہ میں نکل جاؤں
اپنےحسار سے
اپنی خدّی کے مدار سے
کہ میں دیکھ پاؤں
ان اداس گیسؤں کو
جن کی راعنائی اب بھی 
مجھے کھینچھ لیتی ہیں
اپنی جانب
اپنی ادا سے 
اپنے مجسمِ حسن سے
اب بھی ان تاریک راتوں کی بازگشت
مجھے اکیلا کرجاتی ہے
اور پھر
ان معصوم آنکھوں کی نمی
ضمیر سے سوال کرتی ہےمرے
آخر کب تک
یہ رات چلے گی
کب صبح کا سورج نکلے گا
کب یہ وصل کی رات ڈھلے گی
امیدوں کے نگر سے جو پیغام آتے ہیں
اُن کےسلام آتے ہیں 
اِن پہ یقین کرنے کو جی چاہتا ہے
پر میں کیسے مان لوں
کیسے یقیں کرلوں
اپنی بے فریبی کا
اپنی حقیقت سےکیسے مؤں موڑ لوں
خاموشی سے اب پھرمیں
جانبِ منزل ہوں
ایک اور فریب کی تلاش میں
ایک اور منزل کی جستجو میں ۔





Tuesday, June 7, 2016

میں اور تم

میں اور تم

جب میں اور تم،
اپنی اپنی سوچ میں مستقبل کی تصویر بنائنگے
تم میرے چہرے میں وہ سب رنگ بھر دینا
جن سے اک نامکمل سی تعبیر نکلتی ہے
میری پیشانی پہ پڑی لکیروں کو غور سے پڑھ لینا
ہر لکیر، اک شکستِ نو کی نوید سناتی  ہوگی
جو تمہاری ہی جستجو کی حمد کرے گی
میں بھی تمھیں تھام کر
غور سے دیکھوں گا
اور پوچھوں گا
تم تو میرے تھے؟
کب مجھ سے جدا ہوئے؟
کب اپنے وجود کو مرے پاس امانت چھوڑ کر 
کہیں دور بس گئے ہو؟
نہ تم مِرے رہے
نہ میں تمھارا رہا ہوں


Friday, June 3, 2016

Leading into a crash

After such a great flight
Smoth sailing across 
The corridors of fame and power 
I am leading into a crash
To be unknown again
Shedding the burden to be a success
Forfeiting the charms of recognition
Admirations of the knowns 
For a life in solitude 
I am crashing into myself again!

دل سے

آج اداس نہ ہو، اے دل
تجھے قرار شاید آج بھی نہ مل پائے گا
تیری جستجو کا اختتام آج بھی نہ ہو پاۓ گا
تجھ میں بسی خواہشوں کا ذکر کیسے کروں
انگنت لمہوں میں کتنی بار لٹا ہے تو
نہ اب کسی کاچہرہ یاد ہے اور نہ ہی کوئی نام
بس چند مسکراہٹوں کے نقش ہیں
جن پر وقت کی دھوپ 
اپنا ہی رنگ چھوڑے جا رہی ہے 
اے دل، آج اداس نہ ہو
تیری طرف کتنے ادہار کر رکھے ہیں میں نے
اور آج اکیلا ہی مقروض کھڑا ہوں 
وقت کے اس چوراہے پہ
جہاں برسوں پہلے
تجھےتنہا چھوڑ آیا تھا
اور آج پھر
نہ دل جوئی کے لئے کوئی پاس ہے 
نہ ہی کوئی ہاتھ 
جو مرے سینے میں تجھے تلاش کرے
نہ ہی اب کسی کی طلب ہے 
نہ ہی کسی کی جستجو
اے دل، آج اداس نہ ہو
سنا ہے جلد ہی ، انصاف ہوگا
ہر دکھ کا مداوہ ہوگا
ہر  زخم کا حساب ہوگا
مہشر  ہوگا
قتل عام ہوگا
ظالم کو سزا ہوگی
تیرے قاتل آئنگے
ہم سرعام
ہمکلام کرائے جائینگے
مورډ الظام ٹھیراے جائنگے
ہم منصب پہ بٹھائے جائنگے 
ہمارے بھی سجدے کرائے جائنگے 
لوگ ہمارے نام کی قسمیں اٹھائینگے
اپنے سچےو مخلص ہونےکا یقیں دلائینگے 
اور ہم دل کے ماروں کو
پھر وہی
وعدۂ وفا کا ایک دلاسہ مل جائے گا
اک یقین مل جائے گا
اک ایمان مل جائے گا
اے دل، آج اداس نہ ہو
تیری بات سننے والے آئنگے
تجھے سمجھنے والے آئینگے
تجھے اپنی آخوش میں لیکر 
پھر تنہا چھوڑ جانے والے آئنگے
اے دل، آج اداس نہ ہو
تجھے بھی تو 
اب ایسے ہی رہنے کی عادت ہے
نہ ہی رسوائی کا ڈر
نہ کسی بات کی شکایت 
سب نے سمجھ لیئں ہیں
تیری یہ عیاریاں
کہ، تجھے کسی کا غم نہی
تجھے، کسی کی تلاش نہیں
تو کسی کا منتظربھی تو نہیں
یہ سب تیرے ڈہونگ ہیں
پھر کسی کو جیتنے کی خواہش
پھر کسی کو لوٹنے کا ارادہ
اے دل، آج اداس نہ ہو
تو کامیاب آج بھی ہے
تو شاطر آج بھی ہے
تجھ سے سب  پھر دھوکا کھائیں گے
تجھ پہ اعتبار سب کو ہوگا
تجھ سے پیار پھر اک بار ہوگا
اے دل، اب اداس رہنا چھوڑ دے
بس سمجھ لے
تو اکیلا ہے
تو برحق ہے
تو بے نیاز ہے
نہ تیرا کوئی ہے

نہ تجھ سے کوئی ہے
نہ تیرا مقابل کوئی ہے
اور یہاں کوئی تیرا ہمسر بھی نہیں ہے